آپ نے ’’لوکان موسیٰ وعیسیٰ حیین‘‘ والی کمزور دلیل دی ہے۔ اگر ہمت ہے تو صرف اس حدیث کی سند بیان کردو۔ مگر قیامت تک اس کی سند تم نہیں دے سکتے۔ اس لئے کہ دنیا میں کوئی حدیث ایسی ہے ہی نہیں۔ حدیث نہیں اور سند نہیں۔ مرزاقادیانی کی حدیث کے راوی کریم بخش کی روایت کے لئے تو سند کی ضرورت ہے۔ مگر رسول اﷲﷺ کی حدیث کے لئے کسی سند کی ضرورت ہی نہیں۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آپ نے اپنے پرچہ کے ص۶ پر تسلیم کرلیا کہ مرزاقادیانی کے الہام نے اسی طرح حضورﷺ کے حکم کو بدل دیا۔ جس طرح حضورﷺ کی وحی نے بیت المقدس کے قبلہ کو بدل دیا۔ میرے بھائی یہی بات میں پہلے سے کہہ رہا ہوں۔ مرزاقادیانی کے الہام نے عیسیٰ علیہ السلام کو مارا ہے۔ رسول اﷲﷺ نے نہیں مارا۔ قرآن نے نہیں مارا۔ خدا کا شکر ہے کہ مولوی سلیم نے اس کو تسلیم کرلیا۔
اسی لئے آپ نے اپنے پہلے پرچہ کی پہلی سطر میں ہم کو مسلمان بھائی کا خطاب دیا۔ اے اﷲ تیرا شکر ہے کہ ہمارے حیات عیسیٰ علیہ السلام کے عقیدے کے باوجود مولوی سلیم نے ہم کو مسلمان کہا۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ شاید ان کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ ورنہ زندہ کہنے والا بھی مسلمان اور مردہ کہنے والا بھی مسلمان تو پھر آپ مناظرہ میں آئے کیوں اور فیصلہ کیا ہوا؟
آپ نے کہا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو مارنے سے عیسائیت ختم ہوگئی۔ (اخبار المائدہ بابت ماہ مارچ ۱۹۳۸ء ص۴) میں کرسچن یہ کہتے ہیں۔ مرزائی حضرات کے سبب ہماری ترقی ہوئی ہے۔ کیونکہ اب تک تو مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھاتے ہی نہ تھے۔ مگر مرزاقادیانی نے ان کو سولی پر بھی چڑھا دیا۔ مردہ سا بھی بنادیا اور یہی وجہ ہے کہ جب سے قادیانی مذہب آیا تب ہی سے عیسائیوں کی کثرت ہوئی۔ ۱۸۸۰ء کی مردم شماری میں صرف ہندوستان میں ایک کروڑ عیسائی ہیں۔ پاکستان اس سے الگ ہے۔ یہ ہے مرزاقادیانی کا فیض، حالانکہ مرزاقادیانی نے فرمایا تھا کہ اب کوئی انسان عیسائی نہ ہوگا۔ صرف جن عیسائی ہوں گے؟ دیکھا آپ نے مرزاقادیانی کا کرشمہ اور صلب کے معنی آپ نے بتائے ہی نہیں۔ لہٰذا قرآن وحدیث واجماع سے مسلمانوں کا عقیدہ صحیح ثابت ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور آپ کا عقیدہ معتزلہ کا عقیدہ ثابت ہوا۔ اہل سنت والجماعت کا نہیں۔ لہٰذا میں نہایت درددل سے درخواست کروں