ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
چلو اب یہ ہے جب جی چاہے آؤ اور بے فکر ہوکرآؤ اور چاہے عمر بھر بھی کچھ نہ دو لوگوں میں ایسی شکل ہورہی ہے کہ کھانا اور کھلانا ۔ کھانے والے جاتے وقت حساب کرتے ہیں کہ چار دن میں اتنا کھایا ہوگا آٹھ آنہ بڑھا کردینا چاہیے ذلیل حالت ہے میں نے یہ قصہ ہی نہیں رکھایا باستثناء بعض خصوصیات کے عام طور سے کھانا کھلانا کو بھی ضروری نہیں سمجھتا۔ ہم بھی بے فکر تم بھی بے فکر ۔ یہ حساب کتاب بھٹیاروں کا سا کیسا اس پر بھی لوگ دیتے ہیں گوشرم تو آتی ہے لیکن چونکہ خلوص ہوتا ہے لے لیتا ہوں خلاصہ یہ ہے کہ خدا خلوص دے جہاں خلوص ہوتا ہے وہاں فلوس خود بخود آجاتا ہے کمی تو اخلاص کی ہے عرض کیاگیا کہ جی چاہتا ہے کہ حضور کا مجموعی طریقہ قلم بند ہوکر محفوظ ہوجائے تو بہت نافع ہو آئندہ زمانہ کے لوگوں کیلئے بھی فرمایا کہ جی میرا کیا طریقہ ہے دین ہے میں نے ایجاد نہیں کیا الحمداللہ مجھے اس کا بہت خیال رہتا ہے کہ کوئی دستورالعمل سنت اور شریعت کے خلاف نہ ہو اللہ تعالٰی کی یہ بڑی رحمت ہے ۔ ایک بات میں میرا خیال تھا کہ دستور العمل سنت اور شریعت کے خلاف نہ ہو خدا تعالٰٰی کی یہ بڑی رحمت ہے ۔ ایک بات میں میرا خیال تھا کہ شاید سنت کے خلاف ہو وہ یہ کہ اگر بڑی رقم کا کوئی ہدیہ دیتا ہے تو گوہ دینے والے کی حیثیت سے زیادہ نہ ہو اور خلوص میں بھی کمی نہ ہو لیکن مجھے زیادہ معلوم ہوتا ہے اور طبیعت پر بوجھ سا ہوتا ہے اور واپسی کو جی چاہتا ہے مگر ساتھ ہی میں یہ کہتا تھا کہ یہاں کیا عذر شرعی ہے لیکن باوجود عذر سمجھ نہ آنے کی چونکہ طبعی بات کی مخالفت مشکل ہوتی ہے اس لئے میں انکار کردیتا تھا ۔ لیکن میں سمجھتا تھا کہ یہ محض طبعی معذوری ہے سنت میں اس کی اصل نہیں ہے بہت دنوں مجھے شبہ رہا ۔ میں اپنے کو قاصر سمجھتا تھا ۔ اس واپسی میں مگر واپس کردیتا تھا لیکن الحمداللہ میرا وہ شبہ جاتا رہا جیسے کہ میں نے ایک حدیث دیکھی کہ حضور فرماتے ہیں کہ کوئی خوشبو پیش کرے تو واپس مت کرو اور خود ہی اس کی علت فرماتے ہیں کیونکہ بار اس کا کچھ زیادہ نہیں ہوتا اور فرحت کی چیز پے پس علت عدم رد کی کی خفیف المحل ہونے کو بتلا دیا ۔ میں نے کہا الحمداللہ اس حدیث سے ثابت ہوگیا کہ بوجھ پڑنا طبعیت پر یہ بھی ایک عذر معقول و مشروع رد ہدیہ کا ہے میں نے احتیاطا اوروں سے بھی پوچھا کہ اس حدیث سے یہ بات نکلتی یا نہیں کیونکہ مجھے خیال ہوا کہ کہیں میرے نفس نے یہ مطلب نہ تراشا ہو۔ مگر وہ کہنے لگے کہ اجی صاف دلالت ہے ۔ پھر فرمایا کہ ایک دفعہ بھائی نے چاہا کہ میں کچھ ماہوار تمہارے لئے مقرر کردوں سمجھ دار آدمی ہیں بے تکلف لکھ دیا ۔ مین نے لکھ دیا کہ اس میں خرابی ہے اب تو میرے نظر کسی خاص شخص پر نہیں اللہ پر ہے اور اگر مخلوق پر بھی ہے تو کسی مخلوق معین پرتو نہیں ہے اگر تم نے ماہوار مقرر کردیا تو بریلی ہی میں دل پڑا رہیگا ۔ اول