ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
لینا چاہیے یہ حکمتیں رکھی تھیں ۔ حق تعالیٰ نے میول وجزبات میں ان سے اب نا مشروع موقعوں پر کام لیا جاتا ہے ۔ خیرنا مشروع شہوت سے تو نقصان ہوتا ہی ہے ۔ مشروع شہوت کے افراط میں بھی نقصان ہے اس واسطے کہ افراط میں نشاط طبیعت کا جاتا رہتا ہے بزرگوں نے بھی اس سے منع کیا ہے اس واسطے بہت غلو نہیں چاہیئے ۔ حضرت حاجی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جہاں تک ہوسکے جمیعت کو ہاتھ سے نہ جانے دے یہاں تک کہ چار پیسے اگر کسی کے پاس ہوں تو ان کو جمع رکھے برباد نہ کرے تاکہ قلب کو جمیعت رہے بے احتیاطوں سے مرضوں کا ہجوم نہ ہونے دو ۔ ایسی دلیری اور حق گوئی بھی نہ کرو کہ لوگ دشمن ہوجائیں اور قلب کو مشوش کریں ۔ غرض حضرت حاجی صاحب کے یہاں اس کا بہت ہی اہتمام تھا کہ جمیعت ہو ۔ اس لفظ کو بہت فرمایا کرتے تھے کہ جمیعت بڑی چیز ہے پھر ہمارے حضرت مولانا نے یہ شعر عربی کا پڑھا احفظ منیک ان یصب فانہ ماء الحیاۃ یصب فی الارحام اور فرمایا کہ مجھے شعر بہت ہی پسند آیا ۔ کہتے ہیں کہ آب حیات ہے ( ہنس کر فرمایا ) آب حیات تو ایسا ہے کہ اس سے حیات اللہ ( نام ) پیدا ہوتے ہیں ۔ مگر یہ شخص اس کو حیات یعنی سانپ بچھو کردیتا ہے ۔ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جس کو مرض نہ ہو اور اعتدال کے ساتھ قوت بھی ہو اس کو مقویات اور دوائیں کھا کھا کر قوائے شہوانی کو ازراہ ہوس برانگیختہ کرنا ایسا ہے ۔ جیسے کہ سانپ بچھو خاموش پڑے تھے ان کو چھیڑنا شروع کیا کہ آئیندہ کاٹو ۔ مرض ہو وہ اور بات ہے ۔ امراء کو اس کا بہت شوق ہوتا ہے ۔ میں نے اس پر اس لئے تنبیہ کی ہے کہ مشروع شہوت کے افراط سے بھی باطن کا نقصان ہوتا ہے ۔ ملفوظ ( 443) حضرت حاجی صاحب کے باکمال اساتذہ فرمایا کہ مولانا عبد الرزاق صاحب حضرت حاجی صاحب کے مثنوی کے استاد تھے انہوں نے مولانا الہی بخش کا ندھلوی خاتم مثنوی سے پڑھی تھی اور ان کو خاص مولانا کی روح سے فیض پہنچتا تھا۔ حضرت حاجی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میری سند بہت قریب کی ہے مولانا فتح محمد صاحب ان کا ( یعنی مولانا عبدالرزاق صاحب کا ) مقولہ نقل فرماتے تھے کہ جب مثنوی پڑھتا ہوں تو دنیا وما فیما کی خبر نہیں