ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
ملفوظ ( 624 ) ڈھیٹ ملازم ایک ملازم کو بارہا تنبیہ فرما چکے ہیں کہ کبھی کبھی آ کر پوچھ جایا کرے ـ کہ کوئی کام تو نہیں ہے لیکن ان کو یاد ہی نہیں رہتا ـ آج بھی کئی کام حضرت کو پیش آ ئے لیکن صبح سے ظہر کے بعد تک ان کی صورت ہی نظر نہ آئی فرمایا کہ یہ شخص بہت تکلیف پینچاتا ہے اول تو تنخواہ دار ملازم کو اس قدر آزادی ہی نہ رہنا چاہیے ـ دوسرے میں تو یہاں تک کہہ چکا ہوں کہ تم میرے کام ہی نہ کیا کرو ـ اور مدرسہ میں نہ آیا کرو ـ لیکن ہمیشہ سفارشیں کرا کے مجھے تنگ کرتا ہے ـ میں پھر ڈھیلا پڑ جاتا ہوں اور اجازت دیدیتا ہوں ـ بعدہ اس ملازم کو ممانعت کر دی کہ مدرسہ میں آیا ہی نہ کریں ـ محلہ کی مسجد میں نماز پڑھ لیا کریں ـ اور فرمایا کہ مجھے یہ تو سہل ہے کہ میں اپنا کام ہی نہ لوں ـ لیکن اس سے سخت تکلیف ہوتی ہے ـ کہ جو قاعدہ کسی کو بتلا دیا جائے وہ اس کے خلاف کرے ـ میں اس کی مرضی کے تابع ہو کر کام نہیں لے سکتا ـ اول تو میرا کام ہی کیا ہے سب سے بڑا کام جس کو میں اصل کام سمجھتا ہوں وہ تو ڈاک کا کام ہے ـ سو وہ تو ان میاں سے کبھی ہو ہی نہ سکا ـ اس لیے دوسروں کے سپرد ہے ـ اب صرف یہ رہ گیا ہے ـ کہ مہمانوں کی اطلاع یا مہمانوں سے کچھ کہنا سننا مثلا اپنے کھانے کا خود انتظام کر لیجئے ـ یا کوئی چیز آئی ہوئی گھر پہنچنا دینا یہ کوئی ایسے کام نہیں ہیں مگر اس سے یہ بھی نہیں ہوتا ـ ایک ظریف کا قول ہے کہ مولویوں کے اور کسبیوں کے ملازم سست ہوتے ہیں ـ کیونکہ جہاں ان کے منہ سے کچھ نکلا بہت سے لوگ کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ـ اس لئے ان کے ملازم بے کار ہو جاتے ہیں ـ میں اس سے بارہا کہہ چکا ہوں کہ تم میرے کام نہ کیا کرو ـ میں اس پر خوشی سے راضی ہوں لیکن وہ مجھ کو خواہ مخواہ تنگ کرتا ہے ـ حاجی عبدالرحیم صاحب سے فرمایا کہ آپ اس کو سمجھا دیجئے گا کہ وہ یہاں نہ آیا کرے ـ محلہ کی مسجد میں نماز پڑھ لیا کرے ـ اور میرے کام نہ کیا کرے گھر کے کام کرتا رہے ـ مجھے اس سے تکلیف پہنچتی ہے ـ حاجی صاحب نے عرض کیا کہ یہی تو اس کو شاق ہوتا ہے کہ یہاں نہ آٰیا کرے ـ فرمایا کہ یہ تو ضروری بات ہے ـ کیونکہ میں اتنا صبر نہیں کر سکتا ـ کہ مجھے کچھ کام ہو اور ایک نوکر سامنے نظر آئے اور پھر بھی اس سے کام نہ لوں ـ اس کے