ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
میں اگر کبھی دابتا تو تصنع سے ہوتا جب جی میں نہیں تھا نہیں کیا کہ کون بناؤٹ کرے بزرگوں سے بہت سے تو اس کو ذریعہ قرب سمجھتے ہیں ۔ البتہ جب جوش ہو تو مضائقہ نہیں ۔ اور صاحب کیا بزرگوں کو معلوم نہیں ہو جاتا جوش چھپا نہٰیں رہتا ۔ آدمی جس کو شٰیخ بناتا ہے وہ بہر حال اس کو اپنے سے تو زیادہ ہی عقلمند اور صاحب بصیرت سمجھتا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ تصنع کیوں کرے ۔ سے تو زیادہ ہی عقلمند اور صاحب بصیرت سمجھتا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ تصنع کیوں کرے ۔ میں بزرگوں کے معاملہ میں تو بناوٹ کرتا اپنے عیوب بھی ان سے کبھی نہیں چھپا ئے صاف کہہ دیا کہ مجھ میں یہ یہ عیوب ہیں ۔ اور یہ مرض ہیں ۔ خیر وہ مرض گئے تو نہیں لیکن اس سے علاج تو ہر مرض کا معلوم ہوگیا ۔ ورنہ لوگ بلی کے گو کی طرح اپنے عیوب چھپاتے ہیں گو مصلحت کا اظہار نہیں چاہیے ۔ لیکن جب اسکی اصلاح اپنے اختیار سے خارج ہو جائے تب اظہار بھی ضروری ہے ۔ اگر تفصیل کی ضروت نہیں ۔ کیونکہ آخر شیخ کو تعلق ہوتا ہے اس کو سن کر افسوس ہوتا ہے ۔ ہاں جب مرض بڑھنے لگے تب اظہار ضروری ہے جیسے کسی کو سوزاک ہوجائے تو اگر معمولی تدابیر سے اچھا نہ ہوتو ضروری ہے کہ باپ سے ظاہر کردے ۔ ملفوظ ( 570) اہل عرب کا صدق وصفا۔ عشق میں آداب وہوا کا خاصہ فرمایا کہ تکلفات بہت ہوگئے ہیں عجمیوں کے اختلاط سے عرب میں سبحان اللہ ! تکلف تھا ہی نہیں اور آج کل انگریزی معاشرت کی تقلید کرنے والوں میں تکلفات تو نہیں لیکن تلبیس بہت ہے حتی کہ بات تک ایسے عنوان سے بیان کرتے ہیں کہ کوئی کچھ سمجھے کوئی کچھ سمجھے ۔ نئی اردو بھی ایسی ہوگئی ہے ۔ صدق اور صفات عرب کے اندر جیسا تھا کسی کے اندر نہیں ۔ شاعری بھی ایسی سادی اور خشک ہے کہ کچھ ٹھکانہ نہیں ۔ اب اس سے بھی زیادہ سادگی ہوگی کہ ایک شاعر کہتا ہے واحبھا وتجبنی ویجب ناقتھا بعیری یعنی میں اس پر عاشق ہوں اور وہ مجھ پر عاشق ہے اور میرا اونٹ اسکی اوٹنی پر عاشق ہے۔ عرب میں مرد عاشق ہوتا ہے اور عورت معشوق اور ہندوستان میں عورت عاشق اور مرد معشوق اور فارس میں الٹا معاملہ ہے کہ مرد ہی عاشق اور مرد ہی معشوق ۔ وہاں بڑی سخت گندگی ہے آب وہوا کا خاصہ جدا ہوتا ہے ۔ عرب میں عورتیں بڑی آزاد ہوتی ہیں مردوں سے پورے پورے حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں ۔ ہندوستان کی عورتیں جان نثاری اور خدمت گذاری میں حوریں ہیں ۔