ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
ملفوظ ( 602) کالج والوں کی معقولیت فرمایا کہ کالج والے معقول بات کو مان جلدی لیتے ہیں اگر سمجھ میں آجائے تو فورا کہہ دیتے ہیں کہ میں اپنی رائے کو واپس لیتا ہوں گو بعد کو چاہے پھر اس واپسی کو بھی واپس لے لیں ۔ میرٹھ میں ایک چندہ عام کی ترغیب کا میں نے بیان کیا تھا ۔ اس میں اصل میں یہ بیان کرنا تھا کہ اکثر خلاف شرع چندہ جمع کیا جاتا ہے ۔ سو اس پر متنبہ کرنا منظور تھا ۔ اور کالج والوں نے اس چندہ کے وصول کرنے میں زیادہ گڑ بڑ کی تھی جہ جائز نا جائز کو بھی نہ دیکھا تھا ۔ پہلے تو میں نے تالیف قلب کی غرض سے کہا کہ سچ یہ ہے کہ علی گڑھ کے لوگ اس کام میں ہمارے امام ہیں ۔ علماء کو اس تحریک کی باحتمال خلاف ہونے جی جرات نہ ہوتی تھی ۔ علی گڑھ والوں کو دیکھ کر انہیں بھی جرات ہوئی اور معلوم ہوا کہ یہ تحریک خلاف قانون نہیں ہے ۔ پھر اسکے بعد میں نے کہا کہ گو ہیں تو یہ ہمارا امام مگر بعض وقت امام کوئی ایسی غلطی کرتا ہے کہ جس سے امام اور مقتدی دونوں کی نماز فاسد ہو جاتی ہے اس وقت مقتدی کو چاہیے کہ امام کو غلطی پر متنبہ کرے اس لئے ہم بھی اپنے اماموں کی غلطیاں بیان کرتے ہیں ۔ اس کے بعد پھر میں نے غلطیوں کا خوب اظہار کیا ۔ وعظ کے بعد ایک صاحب نے تنہائی میں کہا کہ آپ سے توقع سرپرستی کی تھی نہ کہ طعن اوراعتراض کی ۔ اس کا تو ہم لوگوں کو کسی قدر خیال ہے ۔ ایسا اختلاف کرنا غالبا مناسب نہ ہوگا ۔ میں نے کہا کہ آُپ غور نہیں کیا ۔ میں نے اصلاح کی ہے کیا اصلاح کا نام اعتراض ہے اگر ہے تو جتنے باپ استاد ہیں وہ سارے دشمن ہیں آپ کی روشن دماغی اور بیدار مغزی سے حیرت ہے کہ آپ اصلاح اعتراض سمجھے وہ بولے کہ اگر اصلاح ہے تو بہت اچھا ۔ پھر فرمایا کہ یہ لوگ زیادہ قیل و قال نہیں کرتے ۔ مہذب ہوتے ہیں جھاڑ کی طرح پیچھے نہیں پڑتے ۔ بعض احباب کہنے لگے کہ خوب ہی دل لگی سے خبرلی ۔ کہ امام توہیں لیکن قرآن غلط پڑھتے ہیں ۔ ایک بار فرمایا کہ ان لوگوں کو عظ میں سب کچھ لیتا ہوں لیکن ہنستے رہتے ہیں ۔ کیونکہ میرا عنوان خشن نہیں ہوتا ۔ نرم عنوان ہوتا ہے اس لئے ذرا ناگوار نہیں ہوتا ۔ گوکہنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا ۔ میرٹھ میں ایک صاحب نے ان لوگوں کو صاف صاف کافر کہہ دیا ۔ جو ان کو سخت ناگوار ہوا ۔ میں نے خوب صورت پیرا یہ میں اول ان کے عقائد کی فہرست بیان کی ۔ پھر ان