ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
ایک مسئلہ پوچھا گیا کہ اگر باوجود واقعات جاننے کے شہادت نہ دے محض اسی خیال سے کہ کچہری میں وکلاء وغیرہ تنگ کرتے ہیں جائز ہے یا نہیں۔ فرمایا کہ اپنے آپ کو ضرور بچانا جائز ہے ۔ عرض کیا گیا کہ چاہے دوسرے کا بھلا ہوتا ہو فرمایا کہ ہمارا جو برا ہوتا ہے ۔ دوسرے کے نفع کے لئے اپنے آپکو مضرت میں ڈالنے کا آدمی مکلف نہیں ۔ چاہے اس کو تو سمجھا سکتے ہیں جس کو محض اعتراض ہی مقصود ہو اس کو کہے دینا چاہے کہ جاؤ تم یوں ہی سمجھو۔ ملفوظ ( 540) جس مسئلہ کا جواب لکھ دیا گیا ہو اگر وہی فتویٰ دوبارہ پوچھا جائے تو اس کے بارے میں ضابطہ فرمایا کہ یہاں یہ بھی فائدہ ہے کہ جس مسئلہ کا ایک مرتبہ یہاں سے جواب جا چکا ہو اور وہ دوبارہ پوچھا جائے اور یہ بات یاد آجائے تو دوبارہ اس کا جواب نہیں لکھتے ۔ لکھ دیتے ہیں کہ اس استفساء کا جواب یہاں سے ایک مرتبہ جاچکا ہے اگر دوبارہ لکھوانا ہوتو اس کو واپس بھیج دیا جائے ہم اس کو اپنے ہاتھ سے پہلے پھاڑ کر پھر دوبارہ جواب بھیج دیں گے ورنہ کسی اور جگہ سے منگوالیا جائے ۔ پھر فرمایا کہ صاحب مولویوں کو گالیاں پڑتی ہیں کہ ایک کو کچھ لکھ دیا اور ایک کچھ ۔ اس لئے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا ۔ ملفوظ ( 541) کام میں جب تک عملی تقاضہ نہ ہو تساہل ہوجاتا ہے ۔ ناغہ کی بے برکتی : مولوی شبیر علی صاحب نے جو کہ مثنوی شریف کے روز مرہ کے سبق کو ساتھ ساتھ لکھتے جاتے ہیں بوجہ گرمی اور ضعف دماغ کے چاہا کے فی الحال صرف نوٹ لکھ لیا کریں بعد کو شرح لکھ لی جائے گی ۔ حضرت نے فرمایا کہ سہولت اور مصلحت دیکھ لو کام میں جب تک عملی تقاضہ نہ ہو تساہل ہوجاتا ہے ۔ اب تو یہ ہے کہ روز کا سبق روز پورا کرنا پڑتا ہے ۔ اگر یہ التزام چھوڑ دیا جائے گا تو پھر عملی تقاضہ نہ رہے گا بعد کو پورا کرنا دشوار ہوگا ۔ باقی اگر مجبوری ہوتو مجھے تکلیف دینا تھوڑا ہی ہے