ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
ت کو ذاکرین کو دیکھتا تھا کہ بعد تہجد کے اکثر اسم ذات کا ذکر کیا کرتے یہ دیکھ کر مجھ میں میں بھی یہ شوق پیدا ہوگیا اور ذاکرین کی مشابہت کرنے لگا اور اب تک بھی اس پردوام ہے بعد تہجد کے کم سے کم دوہزار بعد اللہ اللہ بضرب خفیف سرا کر لیتا ہوں اور ثناء ذکر میں جب خطرات کا ہجوم ہوتا ہے تو ذرا جہر بھی کرلیتا ہوں مگر اندیشہ رہتا ہے کہ اگر دوسرے جان لیں گے تو مدح سرائی سے میرا ستیاناس کردیں گے ۔ ذکر تو کرتا ہوں مگر حضور والا سے اجازت نہیں لیا ۔ اس لئے اس گستاخی پر ہمیشہ ترساں وہراساں رہتا ہوں مبادا میرے لئے مضر ہوجائے ۔ اب حضور فیض گنجور سے ملتی ہوں کہ اگر یہ ذکر میرے لئے مفید و مناسب سمجھتے ہیں تو خدا کے واسطے اجازت عطا فرمائیے ورنہ جو حکم ہوا ہو بسر وچشم تسلیم کر لوں گا ۔ قصد السبیل کے مطالعہ سے بھی اس جرات میں کچھ تائید ملی ہے ۔ جواب : کیجئے اجازت ہے اگر حالات سے اطلاع ہوتی رہے گی سلسلہ تعلیم کا جاری رکھوں گا ۔ ملفوظ ( 539) مال سے استغناء ، ہدیہ اطمینان کی حالت میں پیش کرنا چاہیے ، دوسرے کے فائدے کیلئے خود کو نقصان میں ڈالے : مدرسہ میں کسی نے نوٹ دئیے تھے وقت پر ان کے بھنانے کی ضرورت پڑی بنئے نے دستخط کرانے چاہے حافظ جی جن کے پاس رقم تحویل رہتی ہے حضرت سے دستخط کرانے کے لیے آئے حضرت نے فرمایا کہ میں دستخط نہیں کروں گا کبھی کسی قضیہ میں شرکت نہ ہوجائے ۔ حافظ صاحب نے عرض کیا کہ بنیابلا دستخط کے نوٹوں کو نہیں لیتا بلا دستخط کے نوٹ نہیں چلتے ۔ فرمایا کہ اگر بلا دستخط نہ چلیں گے تو ہم دینے والے کے پاس بھیج دیں گے کہ یہ نہیں چلتے انہں اگر بھیجنا ہوگا روپیہ بھیجیں گے ہم کیوں اپنے اوپر تنگی ڈالیں اس دو ٹوک بات کو سن کر حافظ جی چلے گئے حضرت نے فرمایا کہ دیکھئے چونکہ روپیہ لینے کی نیت چھوڑ دی ہم جیت گئے وہ ہارے ورنہ ہم ہارتے ۔ ایک صاحب ہدیہ تنگ وقت پر دینے آئے جبکہ عصر کی جماعت قریب تھی ۔ میں نے واپس کردیا کہ میں ایسے تنگ وقت میں نہیں لیتا اطمینان کی حالت میں ہدیہ پیش کرنا چاہیے اسی میں