ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
تھے کہ گویا ان رسوم ہی کا نام تصوف رہ گیا تھا ـ یہ بھی رسم ہے کہ سب کو ایک ہی چیز تعلیم کر دیتے ہیں ـ چاہے مناسبت ہو یا نہ ہو ـ میں کسی کو ذکر و شغل بتلاتا ہوں کسی کو محض تلاوت قرآن کسی کو نوافل جو جس کو نافع معلوم ہوا ـ کیونکہ خدا تک پہنچنے کے سینکڑوں رستے ہیں ـ یہ کیا ضرور ہے کہ سب کو ذکر و شغل ہی بتلایا جائے ـ مشائخ کے یہاں گنی ہوئی چیزیں ہیں وہی سب کو بتلا دی جاتی ہیں ـ پہلے بزرگوں کا یہ طریقہ تھا کہ ذکر شغل کی تعلیم جلدی نہیں کرتے تھے ـ پہلے اخلاق کی درستی کرتے تھے ـ مدتوں کے بعد کہیں ذکر شغل کراتے تھے ـ اب تو یوں چاہتے ہیں کہ بس پہلے ہی دن خلافت بھی مل جائے ـ ملفوظ ( 623 ) ضرورت کے وقت قوت بیانیہ کو کام میں لانے کی تاکید ایک بار کچھ اوراق مکتوب خبرت سے کاٹ کر حسن العزیز میں چسپاں کرنے تھے ـ اور ان اوراق میں کچھ سطریں مکتوبات خبرت کی اجزا تھیں خاص ان سطروں کو احقر سے نقل کرا دیا ـ پھر ایک صاحب سے ان اوراق کو قینچی سے صفائی کے ساتھ کاٹنے کے لئے کہا ـ اسی طرح سے ایک مکتوب بھی تربیت السالک سے کاٹنا تھا ـ احقر نے اس مکتوب کے ان سطور کی نقل کے بعد اس خیال سے کہ ان اوراق کو بھی انہیں صاحب سے کٹوایا جائے گا ـ حضرت کے سامنے تربیتہ السالک کی جلد رکھ دی ـ اور صرف اتنا عرض کیا کہ میں نقل کر چکا ہوں حضرت ڈھونڈنے لگے کہ کس جگہ سے اوراق نکالے ہیں ـ احقر نے عرض کیا کہ ابھی تو صرف نقل کئے ہیں نکالے نہیں کیونکہ میں نے سمجھا ـ کہ ان اوراق کو بھی انہیں صاحب سے کٹوایا جائے گا ـ جن سے پہلے مرتبہ اوراق کٹوائے گئے تھے فرمایا کہ آپ کو یہ پوری بات کہنی چاہیے تھی ـ میں کہاں تک یاد رکھوں ـ جب میں نے پہلا کام اپنے ہاتھ سے دیدیا تو پھر وہ مجھے یاد نہیں رہتا ـ بالخصوص جب معلوم ہو کہ دوسرا شخص خود اس کام کو کریگا ـ تب تو میں ذہن میں رکھنے کا ارادہ بھی نہیں کرتا ـ آپ کو پوری بات کہنی بہت آسان تھی مجھے بغیر اس کے کس قدر دشواری اور پریشانی ہوئی آپ اکثر ضرورت کے وقت قوت بیانہ کو بہت کم کام میں لاتے ہیں جس سے دوسرے کو پریشانی اور الجھن ہوتی ہے ـ