ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
اسی دوران گفتگو میں حضرت مرزا جان جاناں رحمتہ اللہ علیہ کا واقعہ بھی بیان فرمایا تھا کہ کسی نے آکر آپ سے حضرت خواجہ میر درد کی شکایت کی کہ وہ سماع سنتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ بھائی انہیں کانوں کا مرض ہے مجھے آنکھوں کا مرض ہے جو خود مریض ہو وہ دوسرے مریض کی کیا شکایت سنے ۔ ملفوظ ( 586) اخلاق متعارف سے نفرت انہیں حکیم صاحب نے تحمل اور عدم ناگواری کی تعریف فرماکر جن کی تنبیہ کا حال 8 شعبان کو ملفوظ نمبر 574 میں درج ہے ۔ فرمایا کہ حضرت گنگوہی کے مریدین کا یہ خاصہ ہے کہ حق کو نہایت خوشی سے قبول کرنے والے ہوتے ہیں ۔ اور مجھے بھی مولانا کے مریدین پر ایک قسم کا زور ہے کیونکہ میجھ کو مولانا کے مریدین سے ایک خاص تعلق ہے ۔ اور ان کو بھی مجھ سے بے حد محبت ہے اسی لئے مجھے ان پر زور ہے جو چاہتا ہوں کہ سن لیتا ہوں ۔ انہوں بھی ذرا ناگوار نہیں ہوتا ۔ حکیم صاحب موصوف حضرت مولانا کے خادموں میں ہیں ۔ پھر انہیں کی بابت فرمایا کہ سچ عرض کرتا ہوں میں بھی ان سے دلی محبت رکھتا ہوں ۔ پھر فرمایا کہ آج کل متعارف اخلاق یہ ہیں کہ خواہ دل میں کدورت ہو لیکن ظاہر میں خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آئے لیکن مجھے یہ نہیں آتا کہ دل میں کچھ ہو اور زبان پر کچھ ۔ اگر کچھ ناگواری ہوتی ہے کہہ سنکردل صاف کرلیتا ہوں ۔ اچھا ہے صاف کرلینا چاہیے دل کو ۔ تاکہ پھر وہی محبت پیدا ہوجائے ۔ اگر کرتا میلا ہوجائے تو ایک تو یہ صورت ہے کہ ایک اور اجلا کرتا اوپر سے پہن لیا اندر ہی سڑہائن رہی ۔ ایک یہ ہے کہ دھوبی کے یہاں بھیج دیا ۔ اس نے پیٹ کوٹ کر پھر صاف شفاف کردیا ۔ پھر دیکھ لیجئے کون سی صورت اچھی ہے آٰیا یہ صورت کہ کپڑا تو میلا ہوچکا لیکن اس کے اوپر درسرا پہن لیا تاکہ دوسرا نہ دیکھ سکے ۔ یا یہ کہ اسی کو صاف کرلیا ۔ ہم تو اسی کو اچھا سمجھتے ہیں ۔ ملفوظ ( 587) حیا اور غیرت کی برکت فرمایا کہ رائے پور کے سفر میں بہت کے قریب سے پیدل گیا ۔ گوشاہ زاہد حسین نہایت محبت پیش ائے اور نہایت خوشی سے سواری کا انتظام کردیتے مجھے شرم ائی ۔ حافظ فصیح الدین صاحب بہٹ میں اتر پڑے کیونکہ وہ پیدل نہ چل سکتے تھے ان کے ساتھ میں نے شٰیخ رشید احمد