ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
نثرونظم ہفتہ وار جدا ہوجایا کرے یہ تو بیخا فرمایا ۔ (ملفوظ 388) شور اور شہرت سے گریز ایک صاحب نے مجلس خیر کے متعلق کوئی مطالعہ بزریعہ تحریر چاہا ۔ مشورہ سے وہ معاملہ مناسب نہیں سمجھا گیا ۔ جناب مولانا احمد حسن صاحب نے اس تحریر کا جواب تحریر کرنا چاہا فرمایا کہ لکھنے کی ضرورت نہیں زبانی سمجھا دیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ پھر فرمایا کہ لکھنا میری رائے میں تمام مضامیں کا بلا ضرورت اچھا نہیں کام ہونا چاہیئے۔ ضابطہ کی شکل کیوں بنے بلا ضرورت ایک بار فرمایا کہ مجلس خیر کی جو پہلی صورت طبعی کتب واشاعت کی تھی وہ بڑے جگھڑے کی تھی ۔ تجارت کے سے جگھڑے کرنے پڑتے ۔ اب جو صورت محض ترتیب وتہذیب تصانیف کی ہے وہ بہت مختصر اور آسان صورت ہے ۔ طبیعت اختصار کو اور سہولت کی بہت پسند کرتی ہے یہ جی چاہتا ہے کہ کام تو بہت ہو اور طریقہ ایسا اختیار کیا جائے کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ اس قدر کا ہورہا ہے سکوت کے ساتھ کا م ہوتا رہے ۔ شور اور طوالت انتظام واہتمام کچھ نہ ہو۔ چنانچہ بفضلہ اب جو یہاں کام ہور رہا ہے اس کی یہی ہیت ہے اپنے اپنے حجروں میں بیٹھے ہوئے خاموشی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اسی کا م کیلئے اور جگہ جو روپیوں میں بھی کام نہ ہوتا یہاں کوڑیوں میں ہورہا ہے ۔ طبیعت ہمیشہ مختصر اور سہل عنوان کو اختیار کرتی ہے جس میں نہ کچھ شورہو نہ شہرت ہو۔ ویسے بعد کو چاہے حق تعالٰٰ خود شہرت کردیں ۔ باقی اپنی طرف سے اس کا اہتمام نہیں چاہئے ، اور جو کام خالص اللہ کیلئے کیا جائے بلا قصد شہرت وغیرہ کے ۔ اس کی حق تعاٰٰلیٰ شہرت فرماہی دیتے ہیں چنانچہ جولوگ چمپ کر عبادت کرتے ہیں ان کی آخر شہرت ہوہی جاتی ہے ۔ طبیعت کچھ ایسی ہے کہ جب میں سفر حج سے واپس آیا تو کانپور میں پہنچنے کی تاریخ کی کسی کو اطلاع نہیں کی ۔ حالانکہ گھر کے لوگوں کا کانپور کے اسٹیشن پربلا ڈولی اتر ناسخت شاق تھا کیونکہ قصبات میں پردہ کا بہت خیال کیا جاتا ہے میں نے انکار کردیا کہ برقع کافی ہے اس سفر میں بھی تو سب جگہ محض برقع ہی میں رہی ہو ۔ یہاں کا نپور اناؤ لکھنو اور ارد گرد کے بہت سے مقامات سے لوگوں کو بغرض استقبال اسٹیشن پر آنیکا ارادہ ہورہا تھا ۔ میں ملا اطلاع کانپور کے اسٹیشن پرمعہ گھر کے لوگوں کے پہنچ گیا ۔ اتفاق سے ایک ڈولی بھی کسی کے لئے آئی ہوئی تھی ۔ وہ خالی تھی اس میں گھر کے لوگوں کو سوار کرکے چپکے گئے ۔ ورنہ خواہ مخواہ ہجوم ہوتا ۔ شہرت ہوتی ۔ اتنے لوگوں تکلیف