ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
انہیں مولوی صاحب کے متعلق فرمایا کہ پکے دنیا دار ہیں ۔ جناب یہ لوگ خیر مجھے لکھ لیتے کچھ حرج نہیں تھا ۔ مگر مولانا کا نام لکھا مجھے بہت ہی ناگوار ہوا ۔ ایک مذہبی پرچہ کا ذکر ہوا کہ جس میں اعتراضات بھی ہوتے ہیں خبریں بھی ہوتی ہیں ۔ آراء بھی ہوتی ہیں ۔ فرمایا یہ مذہبی پرچہ کی شان نہیں ہے ۔ ماشاءاللہ لامداد میں سوائے احکام اور اصلاح کے کچھ نہیں ہوتا نہ رائے نہ اعتراض نہ کوئی خبر ۔ میری رائے میں مذہبی پرچہ ایسا ہونا چاہیے ورنہ ایک صفحہ اخبارکا ہوتا ۔ ایک صفحہ اعتراض کا بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہماری کتاب کی تقریظ الامداد میں چھپوا دو۔ اس کا اصل جواب تو یہ تھا کہ الامداد کے اسی معمول کی ان کو اطلاع کردیتا لیکن بجائے اس کے میں یہ کہہ دیتا ہوں کہ میرا دخل نہیں جو کہ امر واقعی ہے اور اگر میں یہ لکھوں کہ اس پرچہ میں تقریظ وغیرہ لکھنے کا قاعدہ نہیں تو معلوم ہو کہ اسے دخل ہے اس جواب کے بعد جب وہ خود پرچہ والوں سے پوچھیں گے ۔ وہاں سے وہی جواب چلا جائے گا میں یہ لکھ کر خواہ مخواہ اپنا دخل کیوں ظاہر کروں ۔ ملفوظ ( 642) ادھوری بات کہنے کا مرض ایک صاحب نے بعد تراویح جبکہ حضرت کچھ وظیفہ پڑھ رہے تھے آکر ایک صاحب کی بابت صرف اتنا کہا کہ وہ بیمار ہیں بس اتنا کہہ کر چپ ہو رہے دوسرے دن حضرت نے حاضرین سے فرمایا کہ مجھے ان کی اس ادھ کٹی بات سے سخت تکلیف پہنچی ۔ دور قدیم ہوتا تو دیکھتے کہ میں ان کی کیسی خبرلیتا ۔ لیکن وہ تو دور جدید تھا ۔ میں خاموش ہو رہا ۔ ایک صاحب سے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے گا کہ اس کو حرکت سے سخت تکلیف پہنچی ۔ جن کی بیماری کی خبر ان صاحب نے دی تھی ۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اسے یہ کہا تھا کہ میری صحت کی دعا کے لئے حضور سے عرض کریں ۔ حضرت نے فرمایا کہ انہوں نے دوخیانتیں کیں کلام میں بھی خیانت کی اور نسبت الی اتکلم میں بھی خیانت کی ۔ بس اتناہی کہ دیا کہ حافظ جی کی طبعیت خراب ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ انہوں نے پیغام کے طور پر نہیں کہا بلکہ اپنے طور کہا حالانکہ پیغام کے طور پر کہنا چاہیے تھا ۔ کیونکہ ان دونوں کے اثر میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ خود دوسرے کے لئے دعا کی درخواست کرنے کا اثر کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا کہ اس کے کہنے میں کہ انہوں نے درخواست دعا کی ہے ۔ پھر فرمایا کہ سب میں یہ