ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
یہی خیال آیا کہ خدا جانے حضرت حافظ صاحب کا رتبہ بڑا ہے یا حضرت حاجی صاحب کا ۔ حضرت نے فورا فرمایا کہ اہل اللہ کی نسبت یہ خیال کرنا کون بڑا ہے کون چھوٹا ۔ بے ادبی ہے ۔ خدا کو معلوم ہے کہ اس کے نزدیک کون زیادہ مقبول ہے سب سے حسن عقیدت رکھنا چاہیئے تم کو اس کی تحقیق کی کیا ضرورت ہے پیش اہل دل نگہداریدول تانباشید از گمان بدخجل ایک مرتبہ حضرت حاجی صاحب خود بخود فرمانے لگے کہ بعضے آتے ہیں اور دل میں کہتے ہیں کہ اگر یہ بزرگ ہیں تو ہمارے دل کا حال بتلادیں کہ کیا ہے فرمانے لگے اول تو ابزرگی کا دعوی کس نے کیا ہے پھر بزرگی کیلئے کشف ضروری نہیں ۔ پھر اگر بزرگ بھی ہو اور کشف بھی ہوجائے تو یہ کیا ضرور ہے کہ تم کو بتلا ہی دیا کرے بہت بری بات ہے بزرگوں کے پاس خالی دل لے کر آنا چاہیئے تاکہ کچھ لیکر جائے پھر ہمارے حضرت مولانا نے فرمایا کہ معلوم ہوتا تھا تھا اس مجلس میں کوئی ایسا ہوگا ۔ (ملفوظ 382) لطائف پر محنت کا طریقہ فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب فرماتے تھے کہ ایک لطیفہ بھی منور ہوجائے تو اس کی ذریعہ سے سب لطائف منور ہوجاتے ہیں ۔ پھر ہمارے حضرت مولانا نے فرمایا کہ مچائخ سب لطائف کا تصیفہ کرتے ہیں ۔ حضرت حاجی صاحب کے یہاں جیسا کہ حدیث میں ہے ان فی الجسد مضغتہ اذا مصلحت صلحت الجسد کلہ الادھی القلب۔ زیادہ اہتمام قلب کا تھا فرمایا کرتے تھے کہ ذکر کے وقت قلب پر توجہ رکھنی چاہئے جب قلب پر نورانیت ہوگی سب لطائف منور ہو جائیں گے ۔ پھر فرمایا کہ جولوگ کام کررہے ہیں ان کو تو اس کا مشاہدہ ہے جس سے حضرت کی تحقیق کی قدر ہوتی ہے کہ کیسے محقق تھے ۔ لطائف کے بعض ذاکرین کو ایسا منتشر دیکھا ہے کہ ایک لطیفہ سے فارغ ہوکر دوسرے میں لگے اول میں ضعف آگیا اس کی خبر لی تو دوسرا ضعیف ہوگیا ۔ پس ویسی بات ہوجاتی ہے جیسے ایک ہر دلعزیز کی حکایت مشہور ہے کہ وہ کسی کا جی برا نہیں کرتا تھا ۔ ایک مرتبہ دریا کے کنارکے جانے کا اتفاق ہوا ۔ دو معذور شخص کو دیکھا کہ ایک دریا کے ادھر بیٹھا ہے اور ایک ادھر ۔ دونوں دریا کو پار کرنا چاہتے تھے دونوں کے اس سے التجاء کی یہ ہر دلعزیز تھے ہی انہوں نے سوچا کہ کس کو ترجیح دوں اس کنارے پر جوشخص بیٹھا تھا وہ چونکہ قریب تھا اس لئے اس کے زعم میں اس کا مقدم تھا چنانچہ اس کو کندھے پر بٹھا کر لے چلا ۔ جب بیچ دریا میں پہنچا تو سوچا کہ اب