ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
دیدئے ۔ معتقدین کی بابت تو بڑی احتیاط کرنی پڑتی ہے کہ کہیں اسکو دھوکہ نہ ہو یہ نہ معلوم کیا سمجھ دیتا ہو اور دراصل میں ویسانہ ہوں مخالف تو گھر بھی بخشنے تو لاؤ ۔ اس واسطے کہ تم تو ہمارے مسلک کو جانتے ہو اور پھر بھی دیتے ہو تو لاؤ ۔ وہاں کوئی دھوکہ نہیں مخالف تو سرکاری پروانہ سے دیتا ہے جھک مار کردیتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ عداوت میں تو کوئی دیتا نہیں لیکن اختلاف مسلک میں دیتے ہیں محبت تو ضروران کے دل میں اٹھتی ہے جبھی تو دیتے ہیں بڑی بڑی رقمیں ایسے لوگوں نے مجھے دی ہیں ۔ اور میں نے لے لی ۔ بلکہ میں تو جرمانہ سمجھتا ہوں مجھے خود جرمانہ مجھے خود جرمانہ کرنا چاہیئے تھا نہ کہ وہ خود ہی جرمانہ ادا کرتے ہیں پھر ان سے کیوں نہ لوں ۔ ملفوظ ( 517) اہل علم کی عز ت استغناء میں ہے ۔ حضرت گنگوہی کی شان استغناء : فرمایا کہ امراء عموما اہل علم کو بے قدر سمجھتے ہیں بجز ان کے جنہوں نے صحبت اہل علم کی اٹھائی ہے اہل علم خود جاجا کرگھستے ہیں ۔ مجھے تو بڑی غیرت آتی ہے صاحب اہل علم کیوں ذلیل ہو بئس المطاعم حین الذل تکسبھا فالقدر متنصب والقدر مخفوض اپنی پیاز روٹی اچھی بریانی سے جس میں ذلت ہو اور امراء جو اہل علم کو بے قدر سمجھتے ہیں تو یہ وجہ ہے کہ امراء کو ایسے ہی اہل علم ملے جو قابل ذلت تھے اس لئے میں امراء کو بھی معذور سمجھتا ہوں ایک صاحب ذی استعداد اہل علم کو واقعہ بیان کیا۔ کہ دنیا دار فاسق فاجر شرابی کے یہاں کی سفارش کیلئے پہنچے وہ ہوا خوری کیلئے ٹم ٹم پر جارہا تھا ۔ کہاں اس وقت فرصت نہیں پھر ایئےگا ۔ مولوی صاحب پھر پہنچے پھر فرمایا کہ امراء کی کیا خطا ۔ ہم لوگوں نے خود اپنی حالت ایسی کردی ۔ حضرت میری تو رائے اس میں بہت دور تک ہے میں تو چندوں کی بابت بھی علماء کا زبان سے کہنا بالکل پسند نہیں کرتا ۔ لوگ بڑی تہمت لگاتے ہیں بلکل یہ سمجھتے ہیں کہ کھانے کمانے کو مولویوں نے مدرسے کھول رکھے ہیں ان کے دروازہ پر چندہ کیلئے کبھی نہ جائے ۔ پھر فرمایا کہ اپنی ذات سے جو خدمت دین کی ہوسکے وہ کردے اگر چندہ نہ آئے نہ سہی اگر ہم لوگوں کے قلوب درست ہوجائیں ۔ تو سلف صالحین کے طرز پر دین کی خدمت کریں ان کو ہرگز حاجت