ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
اس لئے مجبورا انہوں نے اس شرط کو منظوری کرلیا جو کھانا ان کیلئے آیا وہی مولانا کے سامنے لاکررکھ دیا مولانا نے کھو لیا ۔ پھر فرمایا کہ اس طرز سے دوسری کا بھی فائدہ کہ خرچ سے بچا اور انتظام کے جھنجھٹ سے بچا اور اپنا بھی فائدہ ہے کہ سستا پیر ہوگا تو بہت آدمی دعوت کیا کریں گے اور اگر مہنگا ہوا تو جب پچاس ساٹھ آدمیوں کے کھلانے کی توفیق ہو جب کہیں پیر صاحب کی دعوت کریں اس طرح تو جناب کہیں برسوں میں جاکر دعوت نصیب ہوا کرے اور اگر سستا ہو تو دعوت کرنا مشکل ہی کیا ہے آج یہاں کل وہاں روز دعوت ہوا کرے تین سو ساٹھ دن دعوت ہی میں گذر جائیں ۔ میں کہتاہوں جو سنت کے موافق طریقہ ہوگا اس میں ہر طرح فائدہ ہے یہ طریقہ بلکل سنت ہے حضورکی دعوت ایک صحابی نے کی تھی راستہ میں ایک آدمی باتیں کرتا ہوا ساتھ ہولیا جب میزبان کے دروازہ پر پہنچے تو ٹھٹک گئے اور میزبان سے دریافت فرمایا کہ بھائی ایک آدمی میرے ساتھ زائد ہے کہو تو آئے ورنہ لوٹ جائے میزبان نے بخوشی منظور کرلیا ۔ اس پر لوگ آج کل خیال فاسد کرتے ہیں میں اس کے متعلق تقریر کرتا ہوں وہ بہت غور کے قابل ہے لوگ کیا کرتے ہیں کہ دعوت میں اپنے ساتھ بے بلائے دو ،دو اور تین تین آدمی ساتھ لے جاتے ہیں اور اپنے تقویٰ کی حفاظت کیلئے میزبان سے پوچھ لیتے ہیں کہ بھائی ہمارے ساتھ دو اورہیں یا تین اور ہیں تمسک کرتے ہیں ۔ اس حدیث سے حالانکہ یہ بلکل قیاس مع الفارق ہے جہاں یہ دیکھا کہ حضور نے اپنے ساتھ کے لئے پوچھ لیا تھا یہ بھی دیکھا ہوتا کہ پوچھنے سے پہلے حضور نے ان میں مذاق کیا پیدا کردیا تھا تم نے تو وہ مذاق اول پیدا کیا ہوتا وہ مذاق کیا تھا آزادی کا ایک نظیر اس امرکی کہ حضور نے صحابہ میں آزادی کا مذاق کس قدر پیدا کردیا تھا ۔ بیان کرتا ہوں وہ اتنی بڑی نظیر ہے جس کے قریب قریب بھی آج کل نہیں مل سکتی ۔ مسلم میں ہے کہ ایک فارسی تھا شور بہ نہایت اچھا پکاتا تھا ۔ ایک دن حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آج شوربہ میں نے اچھا پکایا ہے چل کر نوش فرما آیئے ۔ حضور نے ارشاد فرمایا کہ ہاں مگر اس شرط سے کہ عائشہ بھی شریک ہوں گی وہ کہتا ہے نہیں حضرت عائشہ نہیں ! غور کیجئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰٰی عنہا حضورکی محبوب شریک حیات ان کیلئے بھی کس آزادی کے ساتھ انکار کردیا ۔ یہ مذاق کس کا پیدا کیا ہوا تھا حضور ہی کا اسی مذاق کے بھروسہ پر حضور نے میزبان سے اپنی ساتھی کیلئے پوچھا تھا حضور کو پورا اطمینان تھا کہ اگر جی چاہے گا تو منظور کرلے گا نہیں تو صاف انکار کردیگا آج کل بھلا یہ