ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
مہمانان کے ارادہ کیا ۔ حضرت نے منع فرمایادیا ۔ احقر کو ہدایت فرمائی کہ آپ یہاں مقیمانہ زندگی نہ بسر کیجئے بلکہ مسافرانہ طور پر رہیئے ۔ دعوتوں کو بلکل حذف کیجئے نہ میری نہ کسی کی ۔ اگر ایک پیسہ بھی کہیں سے بچ سکے تو بچایئے ۔ ( احقر بوضع تنخواہ طویل رخصت لے کر حاخر ھوا ہے اور توسیع کرانے کا بھی ارادہ ہے ۔) احقر نے عرض کیا کہ کم از کم تنہا حضور کی دعوت کی تو اجازت تو ہونی چاہیے فرمایا کہ جلسہ میں یہ اجازت لینا نہیں چاہیے تھی کیونکہ اس وقت دوسری قسم کا اثر ہے ۔ اگر جی چاہتا بھر کسی موقع پر پوچھ لیتے اور تنہا میری دعوت میں اسی کی کیا ضرورت ہے کہ پہلے سے نوٹس دیا جائے یا کوئی خاص اہتمام کیا جائے اس کی یہ بھی صورت ہوسکتی ہے اگر گھر میں کوئی چیز پکی اور محبت سے کھلانے کو جی چاہا تو ایک پیالہ میں رکھ کر بھیج دی چاہے دو روٹیاں بھی اوپر سے رکھ دیں کوئی خاص تکلف کرنے کی ضرورت نہیں یہ کیا ضرور ہے کہ دعوت ہی ہو اور خاص طور سے اہتمام کرکے نئی چیز بھی پکوائی جائے اور آپ سے یہ بھی کہنا ہے کہ فلاں وقت جوآپ کے یہاں سے کھانا آیا تھا وہ زیادہ تھا ۔ اجی ہم دومیاں بیوی ہیں باقی اور تو سب جی جوڑا کنبہ ہے جس وقت جی چاہیں حذف کردیں گے اگرکوئی چیز بھیجی جائے تو بس صرف اس قدر کہ ہم دونوں مل کرکھائیں مع اس کھانے کی رعایت کے جو خود ہمارے یہاں پکا ہو۔ یعنی بس وہ کھانا ایک شخص کے لائق ہو پھر ہم چاہے سب خود کھالیں چاہے تھوڑا تھوڑا سب کو تقسیم کردیں آپ ایک شخص کے اندازے سے زیادہ نہ بھیجیں ۔ پھر فرمایا لوہاری میں ایک دوست نے میری دعوت کی بہت اصرار کرکے لے گئے میں سمجھا میں اکیلا ہوں گا جاکر کھالوں گا وہاں جاکر دیکھا کہ پچاس ساٹھ آدمیوں کی دعوت ہے میرے اوپرسخت باو ہوا ۔ مگر اخیر میں چپ رہا ۔ چلتے وقت انہوں نے ایک جوڑا اور دس روپیہ پیش کئے میں نے کہا کہ یہ جوڑا کیسا انہوں نے کہا کہ شادی میں آپ کے لئے بنایا ہے میں نے کہا کہ کیا پیش کئے میں نے کہا کہ یہ جوڑا کیسا نہوں نے نے کہا کہ شادی میں آپ کے لیے بنایا ہے میں نے کہا کہ کیا میں نائی ہوں کہ شادی میں جوڑالوں روپیوں کی بابت بھی کہا کہ میں ہرگز نہ لوں گا تم نے اتنا روپیہ کھانے میں برباد کردیا مجھے وہ کھایا ہوا ہی برا معلوم ہوتاہے مجھے پہلے ہوتا تو میں دعوت بھی منظور نہ کرتا ۔ پھر فرمایا ہمیں تو وہ طرز دعوت کا پسند ہے جو حضرت مولانا مِحمد قاسم صاحب رحمتہ للہ علیہ کا تھا ۔ ان کی دعوت ایک طالب علم نے کی ۔ مولانا نے فرمایا کہ بھائی اس شرط سے قبول ہے کہ صاحب وہی کھا نا ہو جو تمہارے لئے دوسرے کے گھر سے آتاہے ۔ ( ان کا کھانا کہیں مقرر تھا ) انہیں تو مولانا کو کھلانا منظور تھا