ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
اس قرآن سننے بیٹھ گئے ۔ لکھنؤ اور اس کے اطراف میں عام طور سے غریبوں کے یہاں بھی گھروں میں تکلیف کا سامان ہوتا ہے ۔ مثلا چاندنی دری وغیرہ چنانچہ ان کے ساتھ بھی چاندنی بچھی ہوئی تھی وہ بہت تکلیف المزاج تھے وہیں بیٹھ گئے اور قرآن سننے لگے اتنے میں ان کی بیوی آگئی اس کے کپڑے میلے تھے کہا کہ بڑی بدسلیقہ ہو کپڑوں میں سے بدبو آرہی ہے نہاکر کپڑے بدل کر آؤ چلی گئیں اتنے میں آیت آئی سجدہ کی ۔ پاک فرش تھا ۔ سجدہ میں گئے ۔ بس وہیں سجدہ روح قبض ہوگئی عجیب بات ہے ۔ خدا جانے کیا حالت تھی ان کی ۔ کون سا مضمون قلب پرغالب تھا ۔ اور دیکھئے گرے نہیں ۔ بلکہ جان نکلنے کے بعد بھی اسی ہیئت سے سجدہ میں پڑے رہے ۔ جب بہت دیر ہوگئی بچہ کھبرایا ۔ ماں کے پاس دوڑا گیا اور کہ ابا کو جانے کیا ہوگیا ۔ اٹھتے ہی نہیں ۔ انہوں نے جاکر دیکھا تو کچھ بھی نہیں ۔ وہاں تو روح پرواز کرچکی تھی ۔ تمام محلہ جمع ہوگیا ۔ طبیب ڈاکٹر بلوائے گئے لیکن روح تو نکل ہی چکی تھی ۔ تاہم احتیاطا رات بھر رکھا صبح کو جب تجہیز تکفین کیا اس وقت یاد آیا لوگوں کو کہ ان کی کرامت تھی انہوں نے کہا تھا اللہ کہ اللہ کے بندے جان دیکر دکھلا دیتے ہیں ۔ سو دیکھ لوجان دیکر دکھلادی ۔ میں نے کہا عجیب قصہ ہے وہ بھی محمد حسین ۔ اللہ اکبر ! عجیب حکایت ہے مگر یہ نہ کسی اخبار میں چھپانہ اس کی شہرت ہوئی وہ واقعہ اس قدر مشہور ہوگیا اسکی اس قدر شہرت ہوگئی ۔ پھر فرمایا کہ انکا انتقاع اتنا عجیب نہیں جتنا مشہور کیا گیا ۔ وہ صاحب حال ضرور تھے ۔ لیکن جس قوال سے وہ سماع سن رہے تھے وہ ظالم غضب کا خوش آواز ہے کئی آدمی اس کے سماع مرچکے ہیں ۔ خونی مشہور ہے اور بھی دو ایک آدمیوں کو وہ اسی طرح مار چکا ہے ۔ دوسرے مولانا خود فرمایا کرتے تھے کہ جب میری موت آئے گی دفعتا آئے گی ۔ طبیب بہت اچھے تھے ۔ قواعد طبیہ کی رو سے اپنی حالت کا اندازہ کرکے فرماتے تھے ۔ کہ میری موت دفعتہ آئے گی کیونکہ ان کو اختلاج کی بیماری تھی اور اختلاج والا اکثر دفعتہ ہی مرتا ہے پھر ہمارے حضرت اس کی تحقیق فرماتے رہے ۔ کہ کسی خاص حالت پر انتقال کر جانا دلیل اس حالت کے مقبول ہونے کی نہیں جیسا کہ اہل بدعت اس واقعہ سے ہر سماع کے جواز پر استدلال کرتے ہیں ۔ سہارنپور میں ایک بوڑھے ہندو کا عین اس حالت میں کہ وہ کسی کے ساتھ مشغول تھا انتقال کر جانے کا واقعہ بیان فرمایا اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ بوجہ ضعف کے لذت کا تحمل نہ ہوسکا۔ اور روح پرواز