ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
عملی کی ضرورت ہے اور اصلاح عملی کیا ہے ۔ یہی کہ اس بیعت کے قصہ کو کم کیا جائے ۔ خاص کر جہاں تو قع ہو امدنی کی وہان تونہ ہی کیا کریں اور جہاں توقع نہ ہو وہاں کرلیا کریں آمدنی کے موقعوں پر تو صاف انکار کردیا کریں اسور جہاں کچھ بھی توقع نہ ہو ۔ آبھائی آتجھے بیعت کرلیں ۔ ایسا کر کے دیکھیں تب اصلاح ہوتی ہے ۔ پھر انہیں پیر زادہ صاحب سے فرمایا کہ دیکھئے پاس رہنے سے یہ فائدے ہیں آپ نے کوئی ایسا بھی دیکھا ہے کہ برا بیعت ہوا ہو اور اس کو یہ فائدہ حاصل ہوگیا ہو بیعت بیچاری کیا کھرچ دے گی ۔ اس عقیدہ کو برخلاف اس کے کہ جو بیعت نہیں ہوا ۔ لیکن کانوں سے یہ باتیں اس نے سنیں وہ اس فاسد عقیدہ میں مبتلا نہیں رہ سکتا ۔ اب آپ ہی سمجھ لیجئے کہ بیعت نافع ہے یا تعلیم ۔ اس پر ان صاحب نے عرض کیا کہ بے شک بیعت نافع نہیں ہے تعلیم ہی نافع ہے ۔ پھر حضرت نے فرمایا کہ پیروں میں بڑی بڑی خرابیاں اس بیعت کی وجہ سے ہورہی ہیں ۔ جو لوگ ان سے بیعت نہیں ۔ ان کے خلاف پر تو ان کو غصہ آتا ۔ اور جو بیعت ہیں وہ اگر ذرا خلاف مرضی کام کریں تو ان کی مصیبت آجائے ایک تو خلاف شرع امور ہیں ان پر غصہ آنا تو اور بات ہے انہیں ایسی باتوں پر غصہ آتا مثلا مرید سے کوئی فرمائش کی کہ برتن بھیج دیں یا کسی کو سفارش کی ۔ اگر اس نے فرمائش پوری نہ کی یا سفارش منظور نہ کی تو خفا ہوجاتے ہیں ۔ اگر خدا کے لئے بیعت کی تھی غصہ کا ہے کا ۔ بس اس سے سمجھ لیجئے کہ کا ہے کو بیعت کیا تھا ۔ پھر فرمایا کہ ایک صاحب کہتے تھے آج ہی کہ دہلی میں ایک پیر جی ہیں ان کے پاس ان کا ایک مرید آیا السلام علیکم کہہ کر بیٹھ گیا ۔ پیر جی صاحب نے سلام کو جواب بھی ( غالبا) نہ دیا اور کہنے لگے کہ میاں تم نے پنا وعدہ پورا نہیں کیا ۔ اس نے کہا کہ حضور مجھے تو یاد نہیں کہ میں نے کیا وعدہ کیا تھا ۔ پیرجی صاحب بولے کہ اچھی بات ہے یاد نہیں ہے تو روز گار سے بیٹھ رہوگے ۔ اس بے گھبرا کر پوچھا تو کہا کہ تم نے کہا تھا کہ یک تنخواہ دوں گا وہ اب تک نہیں آئی ۔ اس نے کہا کہ حضور میں تو غریب ہون اگر ایک تنخواہ حضور کو دیدوں تو کھاؤں کہاں سے ۔ کہا اچھی بات ہے اختیار ہے ۔ روزگار نہیں رہیگا ۔ اس بے چارہ نے عرض کیا کہ حضور روزگار نہ کھوئیے میں ایک مہینے کی تنخواہ حاضر کردوں گا ۔