ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
کہا کرتا ہوں کہ ان کو طعام فاتحہ میں سے حصہ دینا چھوڑ دو ۔ پھر دیکھئے یہی یوں کہیں کہ فاتحہ دلانا ضروری نہیں ۔ جیسی تاویلیں ان کرتے ہیں کہ فاتحہ میں کیا خرابی ہے ۔ دو ثواب پہنچ جاتے ہیں کھانے کا بھی اور جو آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں ان کا بھی ۔ وللہ ! یہ تاویلیں جبھی تک ہیں جب تک پلاؤ میں سے پلاؤ اور بریانی میں سے بریانی ان کو ملتی ہے اگر سب اتفاق کرلیں ہر مردہ کی علیحدہ علیحدہ تو فاتحہ دلایا کریں لیکن ملاجی کو اسمیں سے کچھ نہ دیا کریں ۔ لایا تو کریں پچاس دونے کہ اس میں چھوٹے پیر کی فاتحہ اس میں بڑے پیر کی ۔ اس میں میرے فلانے کی اس مین فلانے کی اور فاتحہ دلا کر ساری مٹھائی لے کر چلدیا کریں تو یہی ملانے کہیں گے کہ فاتحہ بدعت ہے کیونکہ مولوی لوگ منع کرتے ہیں ۔ مطلب تو ثواب پہنچانے سے ہے یوں ہی خیرات کرکے ثواب پہنچادیا کہ کرو ۔ مولوی لوگ کہتے ہیں کہ فاتحہ دلانا بدعت ہے ۔ غرض یہی پیر علماء کا فتوی نقل کرنےلگیں ۔ حضرت اسی طرح پیروں کی آمدنی اگر بند ہوجائے تو باستثناء ہمارے مجمع کے حضرات کے کہ ان کی تو وہ شان ہے کہ ان کی تو پھر بھی یہی حالت رہے ۔ باقی اور پیروں کی حالت میں ضرور فرق آجائے ایک شخص جاکر مرید ہوجائے لیکن دے کچھ بھی نہیں ۔ پھر دوسرا بھی درخواست کرے کہ حضرت میں بھی ۔ تیسرا کہے لگیں جو میں کہہ رہاہوں ۔ کہ بیعت ضروری نہیں ۔ پھر انہیں پیرزادہ صاحب سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ جناب اب دل کو ٹٹولیے کہ بیعت کی کیا حقیقت ہے ۔ فقط جلب اورجلب مال ۔ یہ حقیقت ہے آج کل بیعت کی ۔ اب فرمائیے اصلاح امت کی ضروت ہے یا نہیں ۔ اور محض قولی اصلاح کافی عمل عملی اصلاح کی ضرورت ہے مجھے نکاح بیوگان کے متعلق پہلے بڑا شبہ تھا کہ علماء اس کی اس قدر کوشش کیون کرتے ہیں نکاح ثانی کوئی واجب نہیں ۔ فرض نہیں ۔ صرف سنت ہے علماء یہی کہہ دیں کہ سنت ہی سمجھنا اور عیب نہ سمجھنا واجب ہے ۔ باقی عملا اس کے اس قدر درپے کیوں ہوتے ہیں ۔ کئی سال تک مجھے یہ شبہ رہا ۔ بچپن کا زمانہ تھا پھر الحمداللہ سمجھ میں آگیا کہ چونکہ یہ فساد عملی ہ اس لئے اصلاح بھی عملی ہونی چاہیے ۔ اسی طرح بیعت میں فساد عملی ہے اس کے لیے بھی اصلاح