ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
اور واجب کے ایک ہی معنی ہیں ۔ بس یوں کہنا چاہیے کہ بیعت سنت مستحبہ غیر ضروریہ ہے اگر کوئی فعل مستحب ہے مگر اس کو ضروری سمجھنے لگیں تو بدعت ہے ہم بیعت کے استحباب کا تو انکار نہیں کرتے ۔ اب سنئے دوسرا قاعدہ فقہائے نے لکھا ہے کہ مستحب فعل سے اگر فساد پیدا ہوجائے عقیدہ میں تو اس مستحب کو چھوڑ دینا ضروری ہے اب اس تقریر کے بعد بیعت کو چھوڑنا ضروری ثابت ہوا ۔ اصل قانون تو یہ ہے لیکن ہم محض عوام کی رعایت سے بیعت کرنا چھوڑا نہیں ہے ۔ بلکہ یہ کیا ہے کہ کسی کو کرلیا کسی کونہ کیا ۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ کرنا بھی جائز ہے اور نہ کرنا بھی جائز ہے ۔ یہ سب پیروں کو چاہیے کہ بیعت کا سلسلہ کم کردیا تاکہ یہ غلط عقیدہ لوگوں کے دل سے نکلے کہ بدوں بیعت کے کچھ نفع ہوہی نہیں سکتا جس کے یہ معنی ہیں کہ بدوں ہمارے غلام ہوئے خدا کے غلام ہوہی نہیں سکتے ۔ یہ سب جاہ اور دکانداری کی بات ہے بھلا بیعت کرنا کیسے چھوڑ دیں کیونکہ بلا بیعت کے کوئی ٹکا بھی نہیں دیتا ۔ لیکن یہ خیال بھی غلط ہے اگر بیعت کرنا چھوڑ دیں گے تو پھر کوئی کچھ کیونکہ دینے والوں میں ایسے بھی ہیں جو مرید نہیں لیکن پھر بھی دیتے ہیِں۔ میرے بہت سے برا کہنے والے ہیں جو پیٹھ پیچھے تو برا کہتے ہیں ۔ لیکن جب سامنے آتے ہیں تو سو سو روپیہ دے جاتے ہیں ۔ اور ایسوں کا ہدیہ میں بہت خوشی سے لے لیتا ہوں کیونکہ ان کے اوپر کچھ دباؤ تو ہے نہیں ۔ پھر باوجود اس کے جو دیتے ہیں تو معلوم ہوا کہ بالکل مخلص ہیں ۔ جناب جو ملنے والا ہے وہ تو مل ہی جاتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ اگر نہ ملے توکیا ہے اگر آمدنی ہی کی غرض سے بیعت ہے تو نفریں ہے اس بیعت پر جس یہ نیت ہو ۔ اب دوسری بات کہتا ہوں کہ اگر پیروں کی آمدنی بلکل بند ہوجائے تو یہ سوچئے کہ پھر بھی یہ بیعت کریں یا نہیں دل گواہی دے دیدیگا کہ پھر وہ خود یہی کہنے لگیں کہ بیعت کوئی ایسی ضروری چیز نہیں ۔ دل سے ٹٹول کر دیکھئے ۔ جیسے مورجۃ فاتحہ کو پیر جی ملانے غیرہ نہایت ضروری قرار دیتے ہیں ۔