ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
ہوکر محبوب میں مشغول ہوں اور تمہارے اعتقاد نے میرے اوقات کو خراب کر رکھا ہے ۔ جناب یہ ہیں خدا کے بندے اس شان کے ہوتے ہیں خدا کے بندے ۔ حضرت میں یوں کہتا ہوں کہ خدا کا نام بتلانے میں کسی شرط لگا نے کے کیا معنی ۔ میرے یہاں اسلام تو شرط ہے ۔ کوئی ہندو مجھھ سے پوچھے تو اسے ہرگز نہ بتلاؤں ۔ جب تک کہ مسلمان نہ ہوجائے ۔ باقی چاہے جبری ہوچاہے قدری ہو ۔ چاہے فلاں خانی ہو چاہے سماع سنتا ہو چاہے غیر مقلد ہوجائے رافضی ہو کوئی ہو لیکن ہو مسلمان ہم سے ذکر و شغل پوچھو اور کرو ہم بتلا دیں گے ۔ چاہے نفع نہ ہو لیکن ہم اپنی طرف سے بتلانے کیلئے تیار ہیں ۔ بیعت کا اشتراط تو کیا معنی اہل سنت والجماعت ہونے کی بھی میرے یہاں شرط نہیں لیکن ہم یہ اطلاع کردیں گے ۔ کہ بدوں تصحیح عقائد کے کچھ نفع نہیں ہوئے گا ۔ میں اس لئے اللہ کا نام سب کا بتلا دیتا ہوں کہ ایک اس کی برکت سے کبھی نفع ہوجاتا ہے یعنی عقائد درست ہوجاتے ہیں ۔ بعضے غیر مقلد اور بدعتی بھی مجھ سے پوچھ پوچھ کر ذکر وشغل کرتے ہیں ۔ ان کو بفضلہ نفع ہورہا ہے بعضوں کو یہی حیرت ہے کہ میں ہوں دکن میں کانپور میں ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ یہی پتہ نہیں چلتا کہ تم ہو کدھر ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے سب معتقد ہیں اور تم سے سب رجوع کرتے ہیں ۔ تم کسی کو برا نہیں کہتے ۔ سو واقعی جو کسی کا زیادتی کے ساتھ برا ہونا بیان کرتا ہے میں روکتا ہوں ۔ چاہے وہ غیر مقلد ہوں یا بدعتی ہوں ۔ یا شیعہ ہوں اگر فلاں کو کوئی کافر کہتا ہے تو میں اسے روکتا ہوں گو وہ خود ہمیں کافر کہتا ہے ۔ انصاف کی تو یہی بات ہے کہ جو جتنا برا ہو اتنا ہی اس کو برا کہنا چاہیے زیادتی کرنا نفسانیت ہے ۔ یہ ہونی چاہیے شان خادمان اسلام کی یہ نہیں کہ بیعنامہ لکھو ہمارے نام کہ ہم نے آپ کو فروخت کیا تب قبضہ دیں گے ۔ پھر انہیں پیرزادے صاحب کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ حضرت اب فرمایئے کہ بیعت کی ضرورت رہی یا نہیں ۔ اپنے شہبے رفع کر لیجئے ۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت اب فرمایئے کہ بیعت کی ضرورت رہی یا نہیں ۔ اپنے شہبے رفع کرلیجئے ۔ انہوں نے عرض کیا کہ شہبے تو سارے رفع ہوگئے فرمایا الحمداللہ ۔ پھر غالبا انہیں کے کسی سوال پر فرمایا کہ میں مستحب کو تو بدعت نہیں کہتا اس کو ضروری سمجھنے کی بدعت کہتا ہوں اگر مستحب کو کوئی واجب سمجھ جائے تو کیا یہ بدعت نہیں ہے بیعت کو لازم اور ضروری سمجھا جاتا ہے اور لازم ۔ ضروری