ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
کا یہ خیال مکشوف ہوگیا ۔ فرمایا کہ ہمیں ایک حکایت یاد آئی ۔ یہ گویا ان کا جواب دیا ۔ حکایت یہ بیان کی کہ ایک گلاس میں تیل پانی اور بتی تھی ایسی صورت میں تیل اوپر رہتا ہے اورپانی نیچے ۔ کیونکہ پانی وزنی زیادہ ہوتا ہے پانی نے تیل سے شکایت کی اور پوچھا کہ یہ کیا بات ہے ۔ میں نیچے رہتا ہوں اور تو اوپر ۔ حالانکہ میں پانی ہوں ۔ اور پانی کی یہ صفت ہے کہ وہ صاف شفاف خود طاہر ومطہر روشن خوب صورت خوب سیرت ہے ۔ غرض ساری صفتیں موجود ہیں اور تو ( یعنی تیل ) خود بھی میلا اور جس پر گرے اسے بھی میلا کردے ۔ کوئی چیز تجھ سے دھوئی نہیں جاسکتی ۔ چاہیے یہ تھا کہ تو نیچے ہوتا اور میں اوپر ۔ مگر معاملہ برعکس ہے کہ میں نیچے ہوں اور تو اوپر ۔ تیل نے جواب دیا ۔ کہ ہاں یہ سب کچھ ہے لیکن تم نے کوئی مجاہدہ نہیں کیا ہمیشہ نازو نعم ہی میں رہے بچپن سے اب تک ۔ بچپن میں فرشتے اسمان سے اتار کر بڑے اکرام سے تم کو لائے ہیں پھر جس نے دیکھا عزت کے ساتھ برتنوں میں لیا بڑی رغبت سے نوش کیا۔غرض ہمیشہ عزت اور ناز دیکھا ۔ تمہاری دھوپ سے حفاظت کی جاتی ہے ۔ میل کچیل اور غبار سے حفاظت کی جاتی ہے گو کہ اے مطلب کو سہی اور ہم نے جب سے ہماری ابتداء ہوئی ہے ہمیشہ مصبتیں ہی مصبتیں جھیلی ہیں ۔ سب سے اول تخم سرسوں یا تل کا ۔ سب سے اول مصیبت کا یہ سامنا ہوا کہ سینکڑوں من مٹی ہمارے اوپر ڈال دی گئی ۔ سینہ پر پتھر رکھا ۔ پھر جگہ شق ہوا ۔ یہ دوسری بڑی مصیبت پڑی ۔ تیسری مصیبت یہ پڑی کہ زمیں کو توڑ کر باہر نکلے ۔ چوتھی یہ کہ جب باہر نکلے تو آفتاب کی تمازت نے جگر بھون دیا ۔ پانچوں مصیبت یہ جھیلنی پڑی کہ جب کچھ بڑے ہوگئے تو درانتی سے کاٹا گیا ۔ چھٹی مصیبت یہ کہ زیرو زبر کیا گیا ۔ اور بیلوں کے کھروں مٰں روندا گیا ۔ اخیر میں ساتویں مصیبت تو غضب کی تھی کہ لولہوں میں ڈال کر کر جو کچلا ہے تو جگر پاش پاش کردیا ۔ اس طرح ہماری ہستی ہوئی ۔ عمر بھر مجاہدوں میں گذری ۔ سو مجاہدہ کا ثمرہ یہ اونچا رہنا ہے ۔ اور ناز و نعم کا ثمرہ نیچا رہتا ہے ۔ مولانا سمجھ گئے کہ یہ میرے خطرہ کا جواب ہے کہ آپ کے تو ہمیشہ ہاتھ چومہے گئے جب ملے اول سلام کیا گیا ۔ کیونکہ مولانا کو کبھی تو فیق ہی نہیں ہوتی کہ پہلے سلام کریں اور ہم بیچارے خستہ حال شکستہ بال خصوص اس زمانہ میں درویشوں کو کوئی پوچھتا بھی نہ تھا ۔ وہ تو اب یہ وقت ہوا ہے کہ درویشوں کی قدر ہوئی ہے ورنہ جب تک اسلامی اثر غالب تھا علم ہی کا اثر عام ہے ۔ درویشوں کے