ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
تھے ۔ خود حقہ کی بابت فرمائش کر نہ سکے ۔ مولانا نے پہچان لیا ۔ ایک حقہ کسی سے مانگ لر لائے اور بھر کر تازہ کرکے خاں صاحب پلنگ کے پاس پٹی تلے رکھ دیا ۔ اور کہا کہ خاں صاحب لیجئے ۔ خان صاحب حقہ تو کیا پیتے ان پر ایسی حالت تاری ہوئی کہ نیچے گر گئے ۔اور بہت روئے پھر خود بھی تائب ہوئے ۔ رنڈی کو بھی توبہ کرائی ۔ پھر نکاح ہوا ۔ مولانا پر تو اضع کی شان ختم تھی ۔ اور مولانا گنگوہی کی شان ماشاءاللہ سلاطین اور متطمین کی سی تھی ۔ فرماتے تھے بہادر علی شاہ پیر ان کلیر سے لوٹے تو مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے مہمان ہوئے مولانا نے ان کو ایک روپیہ نذر دیا ۔ مولانا گنگوہی سن کر فرمایا کہ اچھا نہیں کیا ۔ اس قول کو کسی شخص نے مولانا کی خدمت میں نقل کیا ۔ مولانا نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار تک کی مدارۃ فرمائی ہے مولانا گنگوہی اطلاع ہوئی تو فرمایا کہ کفار مدارۃ میں فتنہ کا اندیشہ نہ تھا ۔ بدعتی کی توقیر میں دین کا فساد ہے اس لیے ناجائز ہے اس شخص نے یہی قول مولانا کے سامنے جا کر نقل کیا تو فرمایا کہ میاں کیا واہیات ہیں ۔ بیٹھو بھی اپنا کام کرو کیا ادھر کی ادھر ادھر کی ادھر لگا رکھی ہے ۔ سیوہارہ کے ایک شخص کہتے تھے کہ وہاں مولود تشریف کے متعلق مولانا سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ بھائی نہ اتنا اچھا ہے جتنا کہ لوگ سمجھتے ہیں نہ اتنا برا جتنا کہ لوگ سمجھتے ہیں ۔ عجیب بات فرمائیں لیکن عوام کے سمجھنے کے لائق نہیں ۔ ایک متن ہے جس کی شرح میں کتابیں لکھی جاتی ہیں یہ دونوں قصے پیشتر بھی بے تفصیل مذکور ہوچکے ہیں ۔ یہاں یوں ہی سرسری طور سے اعادہ کر دیا گیا ہے تاکہ سلسلہ کلام محفوظ رہے ۔ پھر ہمارے حضرت نے فرمایا کہ میں تو دونوں حضرات کی شانوں میں ایک فیصلہ کیا ہے کہ مولانا محمد قاسم صاحب تو مغلوب الاخلاق تھے اور مولانا گنگوہی غالب الاخلاق تھے ان پر خود اخلاق غالب آجاتے تھے ۔ اور مولانا گنگوہی خود اخلاق پر غالب رہتے تھے جس خلق کو چاہتے تھے غالب کر لیتے تھے ۔ ہرگلے را دنگ دبوئے دیگر ست ایک جگہ مولانا قاسم صاحب وعظ فرما رہے تھے ۔ مولانا گنگوہی شریک تھے ایک صاحب بولے کہ خیر وعظ کی مجلس میں بیٹھنے کا ثواب تو ہوگیا باقی سمجھ میں تو کیا کچھ آیا نہیں ۔ اگر مولانا