ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
عام فہم مضامین بیان فرما کریں تو کچھ نفع بھی ہو ۔ مولانا گنگوہی سن رہے تھے ۔ فرمایا کہ افسوس ہے شہباز عرش سے درخواست کی جاتی ہے کہ زمین پر اڑا کرے ۔ مولانا محمد قاسم صاحب فرمایا کرتے تھے میں وعظ میں جو کہیں کسی قدر رک جاتا ہوں تو سوچنے کی غرض سے نہیں بلکہ مضامین کا اس قدر ہجوم اور تواتر ہوتا ہے کہ پریشان ہوجاتا ہوں ۔ سوچتا ہوں کہ کس کو مقدم کروں کس کو موخر کروں ۔ حضرت حاجی صاحب یوں فرماتے تھے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو جو اصطلاحی عالم نہیں ہوتے ۔ ایک لسان عطا فرماتے ہیں چنانچہ حضرت شمس تبریزی کو مولانا رومی لسان عطا ہوئے تھے ۔ جنہوں نے نے حضرت شمس تبریزی کے علوم کو کھول کھول کر بیان فرمادیا ۔ اسی طرح مجھ کو مولوی محمد قاسم صاحب لسان عطا ہوئے ۔ مولانا قاسم صاحب فرماتے تھے کہ میں جب اپنی تصنیف کو حضرت حاجی صاحب کو سنا دیتا ہوں تب مجھے اس کے مضامین پر اطمینان ہوتا ہے کہ ٹھیک ہیں بدوں سنائے اطمینان نہیں ہوتا ۔ اور ایک بڑی لطیف بات فرماتے تھے کہ ہمارے ذہن میں مبادی پہلے آتے ہیں ۔ یعنی مقدمات اول آتے ہیں ان کے تابع ہوتا ہے نتیجہ اور ان حضرات کے ذہن میں نتائج پہلے آتے ہیں اس لئے جب سنا لیتا ہوں تو اطمینان ہوجاتاہے کہ مقاصد تو ٹھیک ہیں مقدمات چاہے غلط ہوں ان کی کیا ہے انہیں تو خود ٹھیک ٹھاک کرلیں گے ۔ مقاصد تو صحیح ہیں جتنے وہیبی علم بزرگوں کے ہیں وہ ایسے ہی ہوتے ہیں کہ بس ایک سچی بات قلب پڑگئی ان کے منتسبین میں جو اہل علم ہوتے ہیں وہ یہ کرتے ہیں کہ اس کی تقویت اور تائید دلائل سے بھی کردیتے ہیں تو ان کے دلائل تابع مقاصد کے ہوتے ہیں بخلاف علماء رسوم کے کہ ان کے مقاصد تابع دلائل کے ہوتے ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ اصل مقاصد ہی ہیں ۔ اگر وہ صحیح ہیں اورکوئی دلیل اس کے خلاف کو مقتضی ہو تو دلیل ہی غلط ہے خواہ موقع غلط کی تعیین نہ ہوسکے ۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ مثلا کسی کو سورج نظر آرہا ہے اگر ہزار گھڑیاں متفق ہیں کہ اس وقت سورج چھپ گیا ہے لیکن جو دیکھ رہا ہے کہ ابھی سورج موجود ہے وہ کہہ دے گا کہ سب گھڑیاں غلط ہیں ۔ اگر اس سے دلیل پوچھی جائے گی تو کہ دے گا کہ ہمیں خبر نہیں کہ کہاں اور کیا غلطی ہے مگر غلط ضرور ہے کیونکہ ہم تو سورج کا مشاہدہ