ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
میں ملتا ۔ بلکہ یہ تو اور بھی اچھا ہے کہ دماغ رہا ہلکا اور ثواب ملا پورا۔ اگر کام گھٹ گیا گھٹنے بھی دو ۔ تمہارا مطلب تو نہیں گھٹنا ۔ اور اچھا ہے درد سر تو کم ہوا ۔ اسی کو حضرت مرزا مظہر جان جاناں اور طریقہ سے کہتے ہیں سرجدا کرداز تنم یارے کہ بامایار بود قصہ کوتاہ کر دورنہ سر بسیار بود قصہ کوتاہ ہو اور مقصود پورا ہو اس سے زیادہ کیا اچھا ہے ۔ مدرس کے کم ہوجانے سے تمہارا دم کیوں نکلتا ہے ۔ بس بات یہ ہے کہ مدرسہ چھوٹا رہ جائے گا تو بانی صاحب کی ذلت ہوگی کہ بڑا آپ نے مدرسہ کھولا تھا ۔ اب رہ گئی مدرسی ۔ پھر فرمایا کہ یہ مصیبت ہوگئی ۔ لوگ دور پڑے ہوئے ہیں طریق سے ۔ حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں ایک شخص آئے عرض کیا کہ بہت روز سے میں بیمار ہوں سخت قلق ہے کہ حرم میں نماز نصیب ہوتی صحت کی دعا فرمادیجئے ۔ حضرت نے دعا کر دی ۔ ان کے چلے جانے کے بعد فرمایا کہ عارف کو اس کا بھی رنج نہیں ہوتا کہ بیماری کی وجہ سے حرم میں نماز نصیب نہیں ہوئی ۔ کیونکہ مقصود تو رضا ہے اس کی مختلف طریق ہیں جیسا کہ یہ طریق ہے کہ حرم میں جماعت سے نماز پڑھیں یہ بھی ایک طریق ہے کہ بیمار ہوجائیں اور بیماری پر صبر کریں ۔ صبر سے بھی وہی بات حاصل ہوجائینگی جو جماعت سے حاصل ہوتی یعنی رضا ۔ یہ بھی رضا کا طریق ہے سو ایک طریق تو حاصل ہے اگر ایک نہیں ہے نہ ہو پھر عارف کو رنج کیوں ہو مقصود تو محفوظ ہے ۔ اور بڑی بڑی نازک حکایتیں ہیں لیکن یہ مجمع ان کے بیان کرنے کے لائق نہیں ۔ اس حکایت میں تو کوئی غلطی نہیں ہوسکتی ۔ کیونکہ صاف ہے لیکن بعضے باریک باریک حکایتیں بھی اسکے متعلق ہیں کہ عارفین کی نظر میں رضا ہی مقصود ہے اگر کسی کو مکہ جانا ہو ۔ اور کوئی شخص اس کو کراچی کی راہ سے پہنچادے تو مقصود تو حاصل ہوگیا اگر اس کا اصرار بمعنی کی راہ سے جانے کا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کو بمنئی مقصود ہے حج مقصود نہیں ۔ اگر وہ مکہ پہنچ کر دریافت کرے کی میں کدھر سے آیا ہوں اور کہا جائے کہ کراچی سے اور وہ کہے کہ اگر کراچی کی راہ سے آیا ہوں تو میں حج نہیں کرتا ہے ۔ میں تو بمبئ کی راہ سے آکر حج کرونگا ۔ اور پھر لوٹ کر بمنئی کی راہ سے آئے اور کہے کہ اب ہوگا حج تو وہ محض احمق ہے بہت آدمی مقصود تک پہنچ کر پھر لوٹتے ہیں طریق کی