ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
طرف دست بوسی چوں رسید از دست شاہ پائے باسی اند راں دم شد گناہ تھوڑی دیر بعد ایک صاحب نے سوال کیا کرنا چاہا کہ ایک ہندو نے یہ اعتراض کیا تھا فورا حضرت نے فرمایا کہ اگر خود آپ کو تردد ہو تو دریافت کیجئے اور شبہ کو خود اپنی طرف سے نقل کیجئے انہوں نے کہا کہ مجھے تو تردد نہیں ۔ میں تو اسلام ہی کو حق سمجھتا ہوں ۔ فرمایا کہ بس پھر فضول ہے پوچھنا ۔ انہوں نے کہا کہ بعض مرتبہ ہندو لوگ اعتراض کر بیٹھتے ہیں ۔ فرمایا کہ آپ ان سے یہ کہہ دیا کیجئے کہ ہم نہیں جانتے ۔ ہمارے علماء سے پوچھو ۔ پھر علماء ان سے خود نبٹ لیں گے یہ تو ظاہر ہے کہ آپ سب اعتراضات کے جوابات یاد نہیں کرسکتے اگر اس اعتراض کا جواب یہاں سے سن کر آپ نے دے بھی دیا تو اور کس کس اعتراض کا آپ جواب دیں گے کہیں نہ کہیں پہنچ کر آپ کو ضرور کہنا ہوگا کہ ہم نہیں جانتے ہمارے علماء سے پوچھو ۔ پھر شروع ہی سے یہ کیوں نہ کہہ دیا جائے ۔ ایک ہندو مجھ سے ریل میں ملا اس نے مجھ سے مذہب کی بابت کچھ گفتگوکرنی چاہی ۔ میں نے کہا کہ اگر محض گفتگو مقصود ہے تب تو وقت ضائع کرنا بلکل فضول ہے اور اگر آپ کو تحقیق منظور ہے تو تحقیق کا یہ طریقہ نہیں ۔ آپ میرے ساتھ تھانہ بھون چلئے اور دو مہینے میرے پاس رہیے ۔ ایک جلسہ تحقیق کے لیے ہر گز کافی نہیں ہوسکتا بس اپنا منہ لے کر رہ گئے ۔ ایک ہندو یہاں آیا تھا اس نے مجھ سے کچھ سوالات کئے میں میں نے کہا کہ اگر تم الزامی جواب چاہتے ہو تو ان کے لئے تو ،، وید ،، کے جاننے کی ضرورت ہے اور میں وید جانتا نہیں اور اگر تحقیق جواب چاہتے ہوتو پہلے مجھے یہ بتلادو کہ تم نے پڑھا کیا کیا ہے ۔ تم کیا کیا جانتے ہو ۔ تاکہ معلوم ہوا کہ آٰیا تم ان جوابات کو سمجھ بھی سکو گے یا نہیں ۔ اس نے دوچار کتابوں کے نام لئے ۔ میں نے کہا کہ اتنا علم تحقیق جوابات کے سمھنے کے لیے کافی نہیں ۔ الزامی جوابات کے لئے تو میرا علم کافی نہیں ۔ اور تحقیق کیلئے تمہارے علم کافی نہیں ۔ پھر تو تو میں فضول چلو بس ہوچکا ملنانہ تم خالی نہ ہم خالی پھر فرمایا کہ ایسے جوابات سے یہ ضرور ہے کہ لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ انہیں کچھ آتا نہیں لیکن ہم نے کب اشتہار دیا تھا کہ ہمیں کچھ آتا ہے ۔ اس ہندو نے یہاں سے جاکر لوگوں سے بہت