ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
حضرت خضر علیہ السلام نے بڑا تعجب کیا کہ یہ تو بڑے بے فکر ہیں ۔ فرمایا کہ بھائی تم تو بڑے بے فکر ہو۔ لوگ تو برسوں میرے ملنے کی تمنا میں رہتے ہیں لیکن ملنا نصیب نہیں ہوتا تم سے میں خود ملنے آیا ہوں تم نے میری طرف توجہ بھی نہ کی ۔ حضرت ابراہیم بن ادھم نے فرمایا کہ جسے خدا سے ملنے سے فرصت ہو وہ آپ سے ملنے کی تمنا کرے ۔ حضرت خضر نے فرمایا کہ لوگ مجھ سے دعا کرایا کرتے ہیں تم بھی دعا کراؤ ۔ حضرت ابراہیم بن ادھم نے فرمایا کہ اچھا آپ میرے لئے دعا کر دیجئے کہ میں نبی ہو جاؤں ۔ حضرت خضر بولے کہ یہ تو نہیں ہو سکتا حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ بس اگر یہ نہیں ہوسکتا تو جو کچھ قسمت میں ہے وہ ہورہے گا آپ تشریف لے جا یئے میرا حرج ہوتا ہے ۔ پھر ہمارے حضرت نے فرمایا کہ کام کرنے کی یہ صورتیں ہوا کرتی ہیں ۔ حضرت مولانا گنگوہی فرماتے تھے کہ اگر ایک مجلس میں حضرت جنید بغدادی ہوں اورحضرت حاجی صاحب بھی ہوں ۔ تو ہم تو حضرت جنید کی طرف آنکھ بھی نہ اٹھائیں ۔ ہمارے پیر تو حضرت حاجی صاحب ہیں ہم تو انہیں کی طرف متوجہ رہیں ۔ ہاں حضرت حاجی صاحب جنید بغدادی کی طرف توجہ کریں کیونکہ وہ ان کے پیر ہوں گے ۔ ہمارے پیر تو یہ ہیں ۔ ہمیں جنید بغدادی سے کیا مطلب ! ہمیں تو حضرت حاجی صاحب چاہیں ۔ سوا واقعی دلا رامے کہ داری دل درد بند وگر چشم از ہمہ عالم فروبند کام کی صورتیں تو یہی ہیں ۔ ان صاحب کو یہی حسرت ہے کہ مدرسہ کا کام گھٹ گیا ۔ ارے ہم کہتے ہیں کہ کام سے مقصود کیا ہے رضا ۔ وہ تو نہیں گھٹی ۔ جب سو طالب علموں کی خدمت اختیار میں تھی سوکی خدمت کرتے تھے اب پانچ کی اختیار میں ہے پانچ کی کریں ۔ کام ہلکا اور ثواب وہی ۔ پھر غم کا ہے کا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب بندھا بیمار پڑتا ہے تو فرشتوں کو حکم ہوتا ہے کہ میرا بندہ معذور ہوگیا ہے جو نیک عمل یہ حالت صحت میں کرتا تھا وہی اب بھی تم روز بروز لکھتے رہو ۔ دیکھئے ثواب وہی لکھا جاتا ہے حالانکہ عمل نہیں ۔ اگر ہم پانچ ہی کی خدمت کی قدرت رکھتے ہیں لیکن نیت یہ ہے کہ اگر قدرت ہوتی تو سوکی خدمت کرتے تو ہمیں اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ سوکی خدمت کرنے