ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
کام سے بھی تو مقصود رضا ہی ہے اور وہ غیر اختیاری امور پر موقوف نہیں ۔ یہ قاعدہ کلیہ عمر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو امور اختیار میں ہوں اور فضول نہ ہوں ان کو تو قصد کرے اور اختیار میں نہ ہوں ان کا ہرگز قصد نہ کرے ۔ اسی طرح اگر زندگی بسر کرے تو اس کی دین دنیا دونوں درست ہوجائیں ۔ پریشانی تو ایسے شخص کے پاس بھی نہیں پھٹک سکتی ۔ بس خدا سے اپنا دل لگائے رکھے جس کو پریشانی نہ ہوگی دل بھی اسی کا خدا کی طرف لگ سکتا ہے ۔ ورنہ پریشانی میں آدمی عبادت بھی نہیں کرسکتا ۔ جمعیت بڑی دولت ہے مگر پھر پریشانی بھی وہی مضر ہے جو اپنے اختیار سے لائی جائے ۔ اور جس پریشانی میں اپنے اختیار کو دخل نہ ہو ذرا بھی مضر نہیں بلکہ مفید ہے ۔ اور ایسے غیر اختیاری امور کے پیچھے پڑنے کا خیال خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل سے نکالا گیا ہے ۔ جابجا ارشاد ہے ۔ لست علیہم بمصیطر ولو شاء ربک لامن من فی الارض کلھم جمیعا افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مومنین وما کان لنفس ان تومن الا باذن اللہ وما انت علیہم بوکیل انا ارسلنک بالحق بشیرا و نذیرا ولا تسئل عن اصحب الجحیم ۔ سب کا حاصل یہ ہے کہ جو چیز اخیتار میں نہیں اسکے پیچھے نہ پڑے ۔ کیا چودھویں صدی میں یہ آیتیں منسوخ ہوگئی ہیں جو ان عمل نہیں کیا جاتا ؟ ایک بزرگ کو ان کے کسی مرید نے کسی مقام سے لکھا تھا کہ یہاں کافروں کا بہت زور ہے ۔ دعا فرمائیے ۔ انہوں نے لکھا کہ کیا ہم نے تم کو وہاں نامہ نگاری کے لیے بھیجا ہے ۔ کیا تم وہاں کے ایڈیڑ ہو جو اس قسم کی خبریں لکھتے ہو ۔ خبردار ! جو پھر کبھی ایسے باتیں لکھیں ۔ اپنے کام میں مشغول رہنا چاہیے ۔ تمہیں اس سے کیا بحث کا فروں کو چاہے زور ہو ۔ چاہے شور ہو ۔ پھر ہمارے حضرت نے فرمایا کہ ہمارے مولانا یعقوب صاحب بیان فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ سے حضرت خضر علیہ السلام ملے سلام اور مصافحہ کے بعد حضرت ابراہیم بن ادھم پھر ذکر میں مشغول ہوگئے ۔ حضرت خضر نے کہا کہ آپ نے مجھ کو پہچانا نہیں ۔ میں خضرہوں ۔ حضرت ابراہیم بن ادھم بولے کہ اچھی بات ہے ہوں گے لیکن چونکہ میں نے اس سے پہلے آپ کو دیکھا نہیں ۔ اسلئے پہچانا نہیں ۔ یہ کہہ کر پھر اپنے کام میں مشغول ہوگئے ۔