ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
ہوتا تو یہ خرافات کہیں قلوب میں رہ سکتی تھی عشق آں شغل ست کوچوں بر فروخت ہر کہ جز معشوق باقی جملہ سوخت نور حق وہ چیز ہے خدا جانے جب پھیلتا ہے ساری کو ٹھڑی کو بھردیتا ہے ۔ جو نفی اثبات لاالہ الا اللہ اور اللہ اللہ کرتا ہو اس کے قلب میں یہ چیزیں ہوں ۔ معلوم ہوتا ہے محض وظیفہ لفظی ہے باقی دل میں ہر وقت یہی چیزیں بھی رہتی ہیں ۔ یہ تو ایک قسم کا شرک ہے ۔ اللہ کے ساتھ غیراللہ مقصود بالذکر ہو ان ہی باتوں کے لئے کہا کرتا ہوں کہ یہاں رہو تاکہ ان امور پر نظر ہوجائیے ۔ باقی اصلاح میں کیا کرتا کیونکہ میں خود ہی اچھا نہیں ہوں ۔ دوسرے کی اصلاح کیا کرسکتا ہوں ۔ مگر الحمداللہ ! رستہ صاف نظر آتا ہے کہ یہ راستہ ہے اور یہ راستہ نہیں ۔ اپنے دوستوں کیلئے بھی یون جانتا ہوں کہ راستہ کو راستہ سمجھیں اور غیر راستہ کو غیر راستہ ۔ یہاں رہ کر بحمداللہ یہ ضرور حاصل ہوجاتا ہے کہ طریق غیر طریق تمیز ہوجاتی ہے پھر چلنا اس کا فعل ہے لیکن خود چلنا بھی جبھی ہوسکتا ہے جب رستہ معلوم ہو ۔آج کل یہ حالت ہے کہ کتابیں ختم مدرس بھی ہوگئے ۔ مگر یہ آج تک خبر نہیں کہ راستہ کیا ہے ۔ لوگ زوائد میں مبتلا ہیں ۔ مقاصد کو چھوڑئے ہوئے ہیں ۔ ایک صاحب کاخط آیا ہے انہوں نے ایک مدرسہ توکل پر کھول رکھا ہے لیکن انہیں طریق ہی نہیں ۔ معلوم توکل کی حقیقت ہی سے بے خبر ہیں ۔ لکھا ہے کہ بوجہ روپیہ نہ ہونے کے ایک مدرس نے استعفی دیدیا جس سے دل کو بہت ہر اس ہے ۔ ایک مدرس کی کمی سےحسرت ہے ان سے کوئی پوچھے کہ ہراس اور حسرت کیوں ہے ۔ میری نگاہ بہت دور پہنچی ہوئی ہے ۔ اس میں سوبات یہ ہے کہ چور ہے قلب کے اندر ۔ وہ یہ کہ اپنی طر ف منسوب کرنا چاہتے ہیں ۔ ایک خاص کام کو کہ ہم سے ایسا بڑا کام ہوا ۔ اس لئے اس کے اسباب کم ہونے سے ہر اس ہوتا ہے ۔ مگر کوئی خاص درجہ کاکام ہی کیوں اپنے ذہن میں متعین کرے جتنی خدمت اپنے اختیار میں ہو وہ کرتا ہے ۔ پس اگر بلکل روپیہ نہ رہے اور سب مدر سین چھو ڑ کر چلے جائیں تو خد اکیلا ہی اپنے گھر پر طالب علموں کو لے کر بیٹھ جائے ۔ کیونکہس سے زیادہ پر اس کو اب قدرت ہی نہیں رہی کام کے خاص درجہ کو کیوںمقصود سمجھے ۔