ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
ناگواری نہیں ہوتی جتنی ان فضولیات میں جن کو کہنے والا خود بھی سمجھے کہ یہ فضولیات ہیں ۔ میرے پاس آتے ہیں اپنے دین کی اصلاح کےلئے روایات وحکایات سے کیا فائدہ کہ کوئی یوں کہتا ہے کوئی یوں کہتا ہے ۔ دیکھئے ! اس مضمون کی وجہ سے اتنی پریشانی ہوئی ۔ بھلا کیا فائدہ ہوا کہ کئے رکعت کا ثواب ملا ۔ اور مضامیں اس پرچہ میں واقعی پوچھنے کے قابل تھے ۔ مگرپنسل کا مضمون بے شک حرارت پیدا کرنے والا تھا مزاج میں ۔ یہ اچھی دھمکی ہے کہ صاحب براکہتے ہیں ۔ ہم نے ایک دن بھی اس کا اہتمام نہیں کیا کہ کوئی برا بھلا نہ کہے ۔ وہ لوگ تو دشمن ہیں بلا سے تکلیف پہنچائیں ۔ لیکن آپ تو محب ہیں آپ نے کیوں تکلیف پہنچائی ۔ یہ تو ایسی مثال ہوئی کہ کسی کے سوئی چبھوئی اس نے لا کر مولوی صاحب کی ران میں گھسا کر بتلایا کہ مولانا یہ سوئی ہے یوں چبھا کرتی ہے کیا علاج ہے اس کا ۔ انہوں نے آپ کے سوئی چبھوئی آپ نے آکر ہمارے چبھودی یہ تو مرگ انبوہ چشنے دار کی وجہ سے آپ نے ایسا کیا تاکہ دوسرے کو بھی شریک کرکے اپنا کھ ہلکا کریں ۔ افسوس محبت کے دعویٰ میں ایسی کاروائی ۔ ان لوگوں نے تو پیٹھ پیچھے برا کہا جس کی مجھ کو خبرنہیں ہوئی ۔ انہوں نے تو مجھ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی تھی ۔ آپ نے البتہ ان کے برا کہنے کا ذکر میرے سامنے کرکے سخت تکلیف پہنچائی ۔ کوئی شخص کسی کے منہ پر تھوڑا ہی برا بھلا کہتاہے ۔ یہ ان محبین ہی کی بدولت تکلیف پہنچتی ہے جو کچھ پہنچتی ہے کیونکہ انہیں کے ذریعے سے خبریں پہنچتی ہیں ورنہ کسی کے برا بھلا کہنے کی کبھی اطلاع بھی نہ ہوا کرتی ۔ ایک شخص نے تو تیر چلایا جس کی دوسرے کو ممکن ہے خبر بھی نہ ہوتی لیکن خیر خواہ صاحب اس تیر کو اٹھا کر لائے اور بدن میں چبھو کر بتلایا کہ فلاں شخص نے یہ تیر تمہارے اوپر چلایا تھا ۔ واہ رے خیرخواہی ۔ تیر چلانے والا تکلیف کا باعث نہ ہوا تھا ۔ ان خیرخواہ صاحب نے تیر لاکر چبھوہی دیا ۔ پھر فرمایا کہ خدا جانے توجہ الی اللہ کیوں نہیں ہے جو توجہ الی الخلق ہوتی ہے قلب ہے یا سرائے ہے کہ جس خدا بھی بستا ہے بدعتی بھی بستے ہیں ۔ اہل مراد آباد بھی بستے ہیں ۔ بچھراؤں والے بھی بستے ہیں قلب کیا ہے سرائے ہے کسی کو ٹھڑی میں کوئی کسی کوٹھڑی میں نور حق