ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
پھر فرمایا اگر بزرگ پڑھے لکھے نہیں تھے تو ان کو ان دورد شریف کے صیغوں کے متعلق علماء سے پوچھنا چاہیے تھا ۔ اگر ایسا کرتے تمام مشائخ کے یہاں مقبول ہوجاتے ۔ لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے چھوٹا ہوجاتا ہے ۔ حالاں کہ بڑا ہونے کی یہی صورت ہے مگر ہونے کی نیت سے ایسانہ کرے ورنہ پھر کچھ نہ ہوگا ۔ پھر فرمایا کہ ماثور درودوں کو چھوڑ کر ضرورت ہی کیا ہے ان درودوں کے پڑھنے کی ۔ استفسار پر فرمایا کہ دلائل الخیرات کے مصنف تو بڑے عالم تھے انہوں نے منقول ہی صیغے لیے ہیں گو بعض صیغوں کے منقول ہونے میں کلام ہے پھر فرمایا کہ میں نے جواب انہیں ہی لکھا ہے کہ مجھ سے جب پوچھنا جب پوچھنا جب پہلے خود مصنف سے پوچھ لو ۔ پھر فرمایا کہ اگر وہ اس پوچھنے سے ناراض ہوں تو پھر ایسے بزرگ ہی کو سلام ہے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ پوچھتے تھے ۔ پھر یہ ان سے کیوں نہیں پوچھتے گو یا قرآن نازل ہوگیا کہ کچھ مت ۔ صحابہ تو قرآن میں بھی پوچھا کرتے تھے پھر فرمایا کہ لوگوں نے پیروں کے آداب میں بہت ہی غلو کر رکھا ہے ۔ بس خدا سمجھ رکھا ہے نعوذ باللہ اور وہ خود بھی اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگے ہیں ۔ ایک پیر صاحب پر ان کے مرید کا سایہ پڑگیا تو نہایت ہی خفا ہوئے اور جرمانہ کیا ۔ بس میرا تو اس باپ میں یہ مسلک ہے کہ محبت کے متعلق جو آداب ہیں وہ سب بیکار ۔ محبت تو چاہے لیکن زیادہ تعظیم تکریم فضول ۔ صحابہ کرام محبت کے آداب کا بہت لحاظ رکھتے تھے ۔ تعظیم تکریم کا ان کا اہتمام تھا ۔ اب اس سے زیادہ کیا محبت ہوگی کہ حضور ﷺ کے لعاب دہن اور آپ وضو نیچے نہ گرنے دیتے تھے ۔ ہاتھوں میں اور منہ میں مل لیتے تھے ۔ ہاتھوں میں اور منہ میں مل لیتے تھے ۔ عرض کیا گیا کہ سایہ شیخ پر پڑنے کا ادب تو فروع الایمان میں بھی لکھا ہے ۔ فرمایا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر سایہ پڑجائے تو جملہ جرمانہ کیا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر شیخ کوئی کام کررہا ہو تو اس کا خیال رکھے کہ اس پر سایہ نہ پڑے پائے ۔ ورنہ پر چھائیں پڑنے اور اس حرکت ہونے سے اس کی یکسوئی میں فرق آکر کام میں خلل پڑے گا ۔ غرض اس کا ہمیشہ خیال رکھے کہ شیخ کو کوئی کلفت یا کدورت نہ ہونے پائے ۔ چنانچہ ایک