ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
نے تحریر فرمایا کہ مجھ کو بھی تردد ہے اور کلا م کی نسبت تحریر فرمایا کہ آپ نے کلام پہلے لکھا ہوتا تو مصلحت تھی اور میں تو اس وقت لکھنا مصلحت سمجھتا ہوں جب مصنف صاحب سے اول اس کی توجیہہ دریافت کرلی جائے پھر اس توجیہ میں نظر کرکے کچھ کہا جاسکتا ہے ۔ دیگر صیغوں میں بھی عبارتیں ایسی تھیں جو سمجھ میں نہیں آتی تھیں ۔ پھر حضرت نے زبانی ارشاد فرمایا کہ خیر غنیمت ہے شبہ تو کیا ۔ورنہ پیروں پر تو اج کل آنکھ بند کرکے ایمان لے آتے ہیں ۔ ان سے گویا کوئی فعل خلاف شرع صادر ہی نہیں ہوتا ۔ استفسار پر فرمایا کہ نسبت اویسیہ تو ہوتی ہے لیکن میرے نزدیک کافی نہیں ۔ ایسے شخص سے غلطیاں واقع ہوسکتی ہیں ۔ کیونکہ یہ تو ہوہی نہیں سکتا کہ ہر جزئی کی تحقیق حضور سے کرسکے ۔ اور اگر ہو بھی تو احتمال ہے کشف کے غلط ہونے کا ۔ محض روحانی طور پر فیض ہونے سے نسبت میں تو قوت ہوجاتی ہے لیکن حقیقت طریق معلوم نہیں ہوسکتی ۔ اور صاحب مجھے تو اس میں بھی شک ہے کہ یہ درود شریف کے صیغے انہیں کے ہوں ۔ شاید کسی عالم نے بنادیئے ہوں گے ۔ اور اگر انہیں کے ہوں تو کون سا کمال ہے ۔ یہ سب کچھ تو تب بھی کچھ نہیں ۔ ایسا شخص ٹھوکر کھائے گا تو کوئی سنبھالنے والا نہیں ہوگا ۔ اندھے صاحب لاکھ مشاق ہوں ۔ بلا سہارا چلنے کے لیکن اگر کوئی کھائی سامنے آگئی تو کھائی صاحب پھر کھاہی جائیں گے ۔ بزرگوں نے یوں کہا ہے کہ ،، گربہ زندہ بہ از شیر مردہ ۔ ،، یہ ایک موٹی بات ہے کہ اس طریق مین سخت ضرورت تعلیم ہوتی ہے اور عادۃ تعلیم مردوں سے نہیں ہوسکتی گو وہ برزخ میں احیاء سے بڑھ کر متصف بالحیوۃ ہوں ۔ ہاں تقویت نسبت ہوسکتی ہے لیکن نری تقویت نسبت سے کیا ہوتا ہے ۔ کوئی ہزار پہلوانی کا زور رکھتا ہو لیکن داؤنہ جانتا ہو تو وہ کچھ بھی نہیں ۔ داؤ جاننے والا ایک بچہ اس کو چت کردیگا ۔ نری تقویت سے کیا ہوتا ہے صنعبت بھی تو چاہیے ۔ روایت کا سلسلہ آخر عبث تھوڑا ہی ہے ۔ مرغی بے مرغ کے بھی انڈے دیتی ہے لیکن خاکی انڈے سے بچے نہیں نکلتے ۔ گو خود کچھ ہو بھی جائے ۔ لیکن ایسے شخص کو اگر کوئی عقدہ پیش آئے تو وہ کسی سے پوچھے گا بھی نہیں ۔ کیونکہ لوگوں کے نزدیک اس کی نسبت اویسیہ قطع ہوجائے گی اس کو سبکی ہونے کا خیال ہوگا ۔