ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
مرتبہ ایک صاحب کھڑے تھے میں کام کررہا تھا مجھ پر سایہ پڑا ۔ میری طبیعت الجھنے لگی میں نے ہٹادیا میں تو اس مطلب یہی سمجھتا ہوں اس کو آداب میں تو لوگوں نے ضرور نقل کیا ہے لیکن کسی نے اس کا راز کہیں نہیں لکھا ۔ لہذا کوئی دلیل نہیں کہ اس کا وہ مطلب نہ ہو جو میں سمجھا ہون ۔ کیونکہ یہ مطلب کسی قاعدہ عقلی یا شرعی کے خلا ف نہیں ۔ پھر یہ آداب کوئی ملہم تو ہیں نہیں ۔ تجربوں کی بناء پر رکھے گئے ہیں ۔ ایک صاحب نے استفسار کیا کہ محبت آداب کیا ہیں ۔ فرمایا کہ جب ہونے محبت ہوگی خودبخود آداب معلوم ہوجائیں گے جیسے لڑکا جب بالغ ہوتا ہے تو خود بخود اس کو شہوت ہونے لگتی ہے ۔ پھر اس کو آداب محبت بتلانے کی ضرورت نہیں رہتی اسے خود بخود سب ترکیبیں آجاتی ہیں نابالغ بچہ کو کس طرح سمجھا جائے کہ جماع اس طرح ہوتا ہے ۔ محبت پیدا کرلے پھر خود بخود آداب قلب میں آنے لگتے گے ۔ محبت کے آداب کی کوئی فہرست تھوڑا ہی تیار ہوسکتی ہے ۔ اور تکلف کے ساتھ محبت بھی نہ کرے ۔ اگر کھینچ تان کر اور آداب کی فہرست پوچھ کر محبت بھی کی تو اس سے کیا ہوتا ہے جتنی محبت ہو بس اتنی ہی ظاہر کرے تکلف اور تصنع نہ کرے یہ تو خواہ مخواہ شیخ ک و دھوکا دینا ہے ۔ ایک بار حضرت مولانا گنگوہی نے فرمایا کہ جتنی محبت پیروں کے ساتھ مریدوں کو ہوتی ہے حضرت حاجی صاحب سے مجھ کو اتنی نہیں ۔ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نے سن کر ادھر ادھر کی باتیں کرکے فرمایا کہ اب تو ماشاءاللہ ! آپ کی حالت باطنی حضرت حاجی صاحب سے بھی بہت آگے بڑھ گئی ہے ۔ مولانا نے فرمایا کہ لا حول ولا قوۃ استغفراللہ بھلا کہاں حضرت کہاں میں ۔ چہ نسبت خاک رابا عالم پاک مجھے اس بات سے بڑی تکلیف ہوئی بہت صدمہ ہوا ۔ مولانا محمد قاسم صاحب نے فرمایا کہ خیر آپ ان سے بڑھے ہوئے نہ سہی لیکن میں پوچھتا ہوں کہ یہ تکلیف آپ کو کیوں ہوئی بس یہی ہے محبت ! آُپ تو کہتے تھے کہ مجھے حضرت سے محبت ہی نہیں ۔ اگر محبت نہ تھی تو یہ صدمہ کیوں ہوا ۔ ویسے پی اپنی افضلیت کی نفی کردیتے بس یہی محبت ہے ۔ حضرت مولانا گنگوہی نے فرمایا کہ بھائی تم بڑے استاد ہو ۔ بڑی بے تکلفی تھی آپس میں ۔ پھر فرمایا کہ میں نے کبھی عمر بھر بزرگوں کے پاؤں نہیں دابے نہ کبھی اس کا جوش اٹھا ۔ ایسی حالت