ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
وہ اول ہی روز کیوں نہ کہہ دیا جائے کون للو پتو کرے طالب کی خوشامد ہمارے ذمہ نہیں ۔ خود طالب کی یہ شان ہونی چاہیے کہ وہ خوشامد کرے ۔ بتدریج کون اپنے مشرب پر لائے کوئی ہمارے اوپر دارومدار نہیں ۔ بہت سے خدا کے بندے موجود ہیں اور خدمت سے ہمیں بھی عذر نہیں ۔ لیکن جب مسلک موافق نہیں تو پاس رکھنا کلفت ہی کلفت ہے میں تو اپنی طرف سے ختم کرچکا ہوں ۔ فقط آپ کا ذمہ جواب رہ گیا ۔ ان صاحب نے خاموشی اختیار کی ۔ پھر فرمایا یا تعجیل میں یہ خرابی ہے ۔ اگر خط وکتابت سے آپ طے کرلیتے جو کچھ میں لکھتا آپ گھر پر مطمئن ہوتے جو چاہتے آزادی سے کہ سکتے تھے ۔ اب آپ کو مشکل پڑھ گئی آنے کی پچ پڑگئی ۔ یہ سب تعجیل کی بدولت ہوا ۔ اگر پیشتر سے طے کرلیتے تو سمجھ کر آنا ہوتا ۔ آکر سمجھ نے میں اور سمجھ کر آنے میں بڑا فرق ہے وہ آنا لطف کا آنا ہوتا ۔ اب کشاکشی میں پڑگئے ۔ حاجی فلاں کے ایک مرید مجھ سے مثنوی پڑھنے آئے اور کہا کہ مجھے میرے پیر صاحب نے مثنوی پڑھنے کیلئے بھیجا ہے ۔ میں نے صاف طور سے کہہ دیا کہ بھائی سنو صاف بات کہہ دینی اچھی ہوتی ہے ۔ ہم لوگ فلاں صاحب کی شان میں گستاخی کیا کرتے ہیں جو مہمان ہو تو اس کو ضرور خیال کرنا چاہی اور کوئی بات ایسی نہ کرنا چاہی جس سے اس کی دل آزادی ہو لیکن جو طالب ہوکر آیا ہے اس کے لیے ہم اپنی آزادی میں کیوں خلل ڈالیں ہم صاف طور سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم فلاں صاحب کی بابت برا بھلا کہنے سے آپ کی خاطر بعض نہیں رہیں گے کیونکہ ہمیں انہیں گمراہ اور امتجاوز عن الشریعت سمجھتے ہیں ۔ اس پر ان صاحب نے کہا کہ آپ جانیں اور وہ جانیں ہمیں اس سے کیا بحث ہم نہ انہیں برا کہیں نہ آپ کو ہمیں ان کا حکم ہوا ہے کہ فلاں شخص سے مثنوی پڑھو ۔ اس لئے مثنوی پڑھنے آئے ہیں ۔ آپ کو اختیار ہے انہیں جو چاہیں کہیں ۔ ہم برا نہ مانے گے۔ چنانچہ وہ یہاں رہیں اور مثنوی شریف کے درس میں شریک ہوتے رہیں چونکہ محض مثنوی پڑھنے آئے تھے اس لیے میں نے ان کو قیام کی اجازت بھی دے دی ۔ اور ان کے عقائد سے تعرض نہیں کیا ۔