ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
آپ کو شاق ہوگا ۔ اور اس کا ہم خود بھی مشورہ نہ دیں گے کیونکہ جس شخص سے آپ کو دین نفع ہہنچ چکا ہے اس کو گمراہ سمجھنا بھی ایک قسم کی ناسپاسی ہے ۔ اس واسطے میں چاہا کرتا ہوں کہ پہلے معاملہ خط وکتابت سے لیا جائے پھر فرمایا کہ بھلا ہم تو ملانے ہیں حضرت حاجی صاحب تو درویش تھے ۔ مسائل اختلافیہ میں بھی انہیں وسعت تھی ہمیں توتنگی ہے لیکن باوجود اس وسعت کے آپ کے شیخ انہیں بھی اچھا سمجھتے تھے ۔ خلاصہ یہ کہ ہماری تحقیق میں وہ صاحب باطن نہیں تھے اور ایسے شخص کو بیعت کرنا جائز نہیں جس کو باطن سے مس نہ ہو ۔ شاہ عبدالغنی صاحب اتنے بڑے محقق درویش اور عالم انکے شاگرد تھے ۔ پھر بھی یہ حالت تھی نہ معملوم شاہ صاحب کو بھی وہ اہل حق سمجھتے تھے یا کیا ۔ کیونکہ شاہ صاحب کا اور ہمارے حضرات کا مسلک تو ایک ہی تھا ۔ چنانچہ شاہ صاحب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے استاذ تھے تو حضرت شاہ صاحب کا تو یہ مسلک اور وہ ( یعنی شیخ اول ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علم غیب کے قائل تھے ۔ عقائد میں اس درجہ اختلاف تھا فرعی اختلاف میں تو کچھ نہیں لیکن اصول میں اختلاف بڑی بات ہے ۔ علم غیب کا قائل ہونا تو عقائد کے متعلق ہے جو کہ اصول کا اختلاف ہے ۔ اسلئے میں تو آپ سے یہ کہلاؤں گا فلاں گمراہ تھے البتہ اگر کوئی شافعی آئے تو نعوذ باللہ اس سے ہر گز نہ کہلاؤں کہ حضرت نعوذ باللہ گمراہ تھے کیوں کے ان کے ساتھ محض فرعی اختلاف ہیں ۔ اسی طرح گو غیر مقلدوں سے مجھے بالکل مناسبت نہیں لیکن ایک غیرمقلد آئے تھے انہوں نے مجھ سے ذکر وشغل پوچھا کیونکہ ان سے فرعی اختلاف تھا اس لئے میں نے کچھ تعرض نہیں کیا ۔ بتلا دیا ۔ ان مولوی صاحب نے کہا کہ علم غیب وغیرہ میرا عقیدہ اہل بدعت کا سا نہیں میں اس کو بہت برا سمجھتا ہوں۔ فرمایا کہ میرے سوال کا جواب نہ ہوا ۔ اتنا صریح صریح میں نے کہا ۔ میں نے کہا تو لگی لپٹی نہیں رکھی ۔ اور نہ لگی لپٹی رکھنے کی میری عادت چاہے گالیاں پڑیں لیکن دھوکہ تو نہ ہو ۔ آپ کو پھا نسنے کی ترکیب تھی کہ آہستہ آہستہ تبدریج ان کو ( یعنی شیخ اول کو ) برا کہہ کر آپ کو ان سے برگشتہ کرتا ۔ لیکن میں اس کو نہایت نازیبا حرکت سمجھتا ہوں جو اخیر میں کہنا ہے