ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
کافر سمجھتے لیکن حاشا وکلا ہم حدود شرعیہ سے تجاوز ہرگز نہیں کریں گے لاحول ولا قوۃ ۔ لیکن ہم یوں کہیں گے کہ گمراہ شخص تھے جو مسلمانوں کو کافر کہتے تھے اور میں اس کو ظاہر بھی نہ کرتا کیونکہ میرے طریقہ کے یہ بلکل خلاف ہے کہ کسی کے معتقد کے سامنے اس شخص کی برائی جائے کیونکہ اس میں معتقد دل آزادی ہے جس کو میں بلا ضرورت نہایت باپسند کرتا ہوں لیکن چونکہ معاملہ کی بات ہے اس لئے مجھکو ظاہر کرنا پڑا ۔ اگر آپ مہمان ہوتے تو خیر ! ہم آپ کی رعایت سے دوچار روز کیلئے اس کی پابندی کرلیتے کہ آپ کے شیخ اول متعلق کوئی گفتگو نہ کرتے لیکن اس حالت میں کہ آپ اپنی آصلاح باطن کے لیے یہاں مقیم رہیں گے ہم اتنے دن کے لیے اپنی آزادی میں کیوں خلل ڈالیں اور خصوصا ایسے شخص کے لیے جو اپنے سے طالب اصلاح کا ہو بلکہ اس حالت میں تو یہ قصد ہوگا کہ طالب کو بھی اپنے مشرب پر لائیں پھر اختلاف بھی معمولی اختلاف نہیں سخت اختلاف ہے ایسا کہ وہ ہمیں کافر کہتے ہیں ۔ یہ بتلائیں کہ آپ انہیں گمراہ سمجھیں گے یا نہیں ۔ دو ٹوک بات ہے میرے یہاں معاملات ہیں صاف ۔ وہ صاحب اس پرکچھ خاموش ہوئے ۔ فرمایا کہ یہ امر آپ کو شاق ہوگا اور ہم بھی آپ کو یہ مشورہ نہ دیں گے کیونکہ جس شخص سے ایک مرتبہ دین کا فائدہ پہنچ چکا ہے اس کو برا کہنا بھی ہے برا ۔ کیونکہ احسان کے خلاف ہے لیکن ایسی صورت میں ہم بھی تو خدمت سے معذور ہیں کیونکہ آپ نے ان محقق سمجھا تو جس کو وہ کافر سمجھیں اس سے آپ دین کی اصلاح کی کی کیوں توقع رکھیں اور اگر ہمیں کافر نہ سمجھا تو انہیں گمراہ سمجھنا پڑے گا کیونکہ جو مسلمان کو کافر سمجھے وہ کیا گمراہ بھی نہیں ۔ اور تیسری شک کوئی ہوہی نہیں سکتی ۔ اور یہ جو آپ چاہیں کہ من وجہہ انہیں حق پر سمجھیں اور من وجہہ ہمیں ۔ تو اس سے کام نہیں چلتا ۔ مجھ سے للو پتو ہو نہیں سکتی ۔ جو صاف بات تھی وہ کہہ دی ان صاحب نے کچھ گفتگو کی جس پر حضرت نے فرمایا کہ تاویلیں نہ کیجئے اس تاویل سے اگر آپ نے مجھے راضی بھی کرلیا تو آپ کو نفع کیا ہوا ۔ آپ کے دل کا تو چور نہ نکلا ۔ اس صورت میں آپ کو کیا نفع ہوسکتا ہے ایسے شیخ سے جس کو اپنا معتقد فیہ کافر کہتا ہو ۔ اسی واسطے تو میں کہتا ہوں کہ ان باتوں پہلے خطوط سے طے کرلینا چاہیے تھا ۔ اب آپ مشکل میں پڑھ گئے ۔ کیونکہ اتنی دور کا سفر کرکے آئے لوٹ جانا بھی