ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
چل کر آئے تھے تمام پیروں پر گرد بھری ہوئی اسی طرح مصلے کی طرف جانے لگے اور ایک بار بھی تو انکار نہیں کیا ن پائچے اتارے نہ گرد جھاڑی ۔ جب مولانا گنگوہی کے مقابلہ میں پہنچے تو مولانا نے صف سے آگے بڑھ کر رومال لے کر پیروں کی گرد جھاڑنا شروع کی مولانا کی عجیب ادا تھی کہ خاموش کھڑے ہوگئے حالانکہ مولانا گنگوہی کا نہایت ادب کرتے تھے نہ معلوم اس وقت کیا حالت تھی مولانا گنگوہی نے پائچے بھی اپنے ہاتھ سے اتارے مولانا فرماتے تھے کہ ایسا جی خوش ہوا کہ انہوں نے کچھ تکلف نہ کیا ۔ ایک دفعہ مولانا گنگوہی کھانا کھار ہے تھے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب تشریف لے ائے مولانا کے ہاتھ میں ایک ذرا سا ٹکڑا تھا اسی وقت ہاتھ دھلائے وہ ٹکڑا دیا کہ کھا ئیے میں کھانا لاتا ہوں ۔ مولوی فخرالحسن صاحب نے کہا کہ میں لیے آتا ہوں فرمایا نہیں بھائی میں خود لاؤں گا پھر کھانا لاکر بہت ادب سے سامنے رکھا ۔ بیشتر دیکھنے والوں نے یوں سمجھا ہوگا کہ کچھ بھی ادب نہ کیا بچا ہوا ٹکڑا دیکر کہہ گئے کہ آپ شروع کیجئے ۔ سبحان اللہ ! صحابہ کی سی شان تھی ۔ مولانا حسین صاحب بہت بڑے شخص تھے گنگوہ میں مولانا سے ملے چلنے کے وقت انہوں نے عرض کیا کہ کھانا تناول فرما لیجئے فرمایا کہ بھائی دور کا سفر ہے میری منزل کھوٹی ہوگی ۔ مولانا نے عرض کیا کہ جو کچھ رکھاہوا ہے وہی سہی ۔ مولانا راضی ہوگئے اور فرمایا کہ بس وہی لے آنا گھر میں موجود ہو ۔ گھر میں باسی روٹی اور دال رکھی تھی مولانا وہی ہاتھ پر رکھ کر لے آئے دال بھی روٹی ہی پر تھی پھر نہیں معلوم ! مولانا ظفر حسین صاحب نے کھائی یا باندھ لی ۔ پھر حضرت حکیم ضیاءالدین صاحب سے رام پور میں مولانا مظفر حسین صاحب نے فرمایا کہ مولوی رشید احمد صاحب بڑے اچھے آدمی ہیں انہوں نے کہا کہ ہاں حضرت بہت اچھے آدمی ہیں ۔ اجی بہت ہی اچھے آدمی ہیں ۔ فرمایا کہ اجی تم سمجھے توہونہیں ایسے اچھے ہیں کہ بہت ہی اچھے ۔ پھر حکیم صاحب نے پوچھا کہ حضرت ایسی کیا خاص بات ہوئی ۔ فرمایا کیا کہوں انہوں نے تھوڑا ساناشتہ کرنے کے لیے راستہ میں مجھ سے کہا میں نے کہا کہ جو کچھ گھر میں موجود ہو وہ لے آؤ۔ انہوں نے باسی روٹی اور دال لاکر دی ۔ سبحان اللہ ! کیسے اچھے آدمی ہیں ۔ پھر مولانا مظفرحسین صاحب کی یہ بھی حکایت بیان فرمائی کہ ایک بار نانوتہ میں تشریف لائے