ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
وہاں حضرت مولانا رشید احمد صاحب و مولانا محمدیعقوب صاحب و مولانا محمد قاسم صاحب موجود تھے فرمایا بھائی ایک مسئلہ میں تردد ہے ۔ میں نے سنا تھا کہ سب صاحب زادے جمع ہیں اس لئے مسئلہ پوچھنے آیا ہوں وہ مسئلہ یہ ہے کہ چلتی ریل میں نماز پڑھنے میں علماء کا اختلاف کرتے ہیں کہ جائز ہے یا نہیں ۔ بس تم لوگ آٌُپس مین گفتگو کرکے ایک منقح بات بتلا دو کہ جائز ہے یا نہیں ۔ میں دلائل نہیں سنوں گا ۔ چنانچہ سب حضرات نے آپس میں گفتگو کی مولانا نے ادھر التفات بھی نہیں فرمایا گفتگو کرکے ان حضرات نے عرض کیا کہ حضرت طے ہوگیا جائز ہے فرمایا کہ اچھا تو پھر میں جاتا ہوں ۔ عجیب شان کے لوگ تھے ۔ مولانا مملوک علی صاحب جوکہ مولانا محمد یعقوب صاحب کے والد اورمولانا رشید احمد صاحب ومولانا محمد قاسم صاحب کے استاد ہیں ۔ دہلی میں دارالبقا سرکاری مدرسہ تھا اس میں ملازم تھے دہلی سے نانوتہ جاتے ہوئے راستہ میں کاندھلہ پڑتا تھا ۔ مولانا مظفر حسین صاحب نے ان سے کہہ رکھا تھا کہ کا ندھلہ میں مل کرجایا کر و ۔ مولانا مملوک علی صاحب نے یہ کہہ دیا تھا کہ تکلف نہ کرنا صرف ملنے کیلئے کچھ دیر ٹھہرجایا کروں گا ۔ چنانچہ گاڑی راستہ ہی میں چھوڑ کر ملنے آتے مولانا اول یہ پوچھتے کہ کھانا کھا چکے یا کھاؤ گے اگر کہا کہ کھا چکا تو پھر کچھ نہیں اگرنہ کھائے ہوتے تو کہہ دیتے کہ میں کھاؤں گا تو پوچھتے کہ رکھا ہوا لادوں یا تازہ پکوادوں ۔ چنانچہ ایک بار یہ فرمایا کہ رکھا ہوا لادو اس وقت ایک دفعہ صرف کھچڑی کی کھرچن تھی اس کولے آئے اور کہا کہ رکھی ہوئی تو یہی تھی انہوں نے کہا کہ بس یہی رکھ دو ۔ پھر جب رخصت ہوتے تو مظفرحسین صاحب ان کو گاڑی تک پہنچانے جاتے یہ ہمیشہ کا معمول تھا ۔ ایک اور قصہ مولوی مظفرحسین صاحب کا ہے کہ دہلی سے کاندھلہ جانے کیلئے بہلی کرایہ کی اس میں بیٹھے چلے آرہے تھے ۔ اور محض اخلاق کے سبب بہلباں سے اس کے مزاق کے موافق گفتگو کرتے جاتے تھے ۔ یعنی بیل کہاں سے منگوائے تھے کتنے میں لیے تھے اس گفتگو میں معلوم ہوا کہ رنڈی کی گاڑی ہے ۔ مولانا کا تقوٰی مشہور ہے لیکن اخلاق تو دیکھئے ہم لوگوں میں یا تو آوارگی ہے یا اگر تقوٰی ہے تو ایسا کہ دوسروں کی دل شکنی کی بھی پرواہ نہیں مولانا تقوٰی اعلیٰ درجہ کا ۔ لیکن گاڑی پر سے اسی وقت نہیں اترے کہ اس کا دل ٹوٹے گا ۔ تھوڑی دیر بعد پیشاب کے بہانہ سے اترے لیکن پیشاب سچ مچ کیا پھر استنجاء کرتے ہوئے پیدل چلے جب استنجا سے فارغ ہوگئے تو اس نے بیٹھنے کیلئے کہا ۔ فرمایا کہ بھائی بہت دیر ہوگئی بیٹھے بیٹھے ! اب پیدل چلیں گے کہ پاؤں تو کھلیں ۔ جب بہت دور نکل آئے تب اس نے پھر اس اصرار کیا ۔ فرمایا کہ ہاں بھائی