ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
|
ذکر میں مشغول ہوگئے کسی نے کوئ بات پوچھی تو جواب دیدیا ۔ اور اگر نہ پوچھی تو کوئی گھنٹوں بیٹھارہے انہیں کچھ مطلب نہیں ۔ مولانا محمد قاسم صاحب کے پاس جب تک کوئی بیٹھا رہتا برابر بولتے رہتے ۔ طبیعت ہی بیدائشی ہے ۔ کوئی بدل نہیں سکتا ۔ مولوی محمد علی صاحب نے بہت اچھی بات فرمائی تھی کہ طبائع تو خلقتا ہی متفاوت ہوتے ہیں انہیں میں بعضے بزرگ بن جاتے ہیں احقر کے استفسار پر فرمایا کہ بزرگی خود مختلف چیز نہیں ۔ البتہ امور طبیعہ جو پیدائشی ہیں جیسے تیزی نزاکت تحمل عدم صفائی انتظام بے انتظامی غرض جو پیدائشی اخلاق ہیں ان سے بزرگوں کی شانیں مختلف ہوجاتی تھیں پھر یہ حکایت بیان فرمائی کہ مولانا محمد قاسم صاحب اور مولانا رشید احمد جب حج کو چلے تو بمبئی میں مولانا محمد قاسم صاحب لوگوں سے ملتے پھرتے اور مولانا گنگوہی انتظام میں مشغول رہتے جب مولانا محمد قاسم صاحب واپس آتے تو مولانا گنگوہی فرماتے کہ کچھ فکر بھی ہے کہ کیا انتظام کرنا ہے آپ ملتے جلتے ہی پھرتے ہیں ۔ مولانا فرماتے کہ مجھے فکر کی کیا ضرورت ہے جب آپ بڑے سرپر موجود ہیں۔ پھر فرمایا کہ ایک بار مولانا محمد قاسم صاحب گنگوہی سے فرمانے لگے کہ ایک بات پر بڑا رشک آتا ہے آپ کی نظر فقہ پر بہت اچھی ہے ہماری نظر ایسی نہیں بولے کہ جی ہاں ہمیں کچھ جزئیات یاد ہوگئیں تو آپ کو رشک ہونے لگا اور آُپ مجتہد بنے بیٹھے ہیں ہم نے کبھی آپ پرشک نہیں کیا ایسی ایسی باتیں ہوا کرتی تھیں وہ انہیں اپنے سے بڑا سمجھتے تھے اور وہ انہیں مولانا محمد یعقوب صاحب عمر میں سب سے چھوٹے تھے ایک مرتبہ نانوتہ سے گنگوہ حضرت مولانا کی خدمت میں پیادہ تشریف لائے حالانکہ معاصر تھے لیکن اتنا ادب کرتے تھے کہ پیادہ تشریف لے گئے کہ سواری پر بیٹھ کرجانا بے ادبی ہے ۔ عصر کی نماز کے وقت مولانا پہنچے جماعت تیار تھی مولانا گنگوہی امامت کرنے کیلئے مصلے پر جاکر کھڑے ہوئے اتنے میں لوگوں نے کہا کہ مولانا محمد یعقوب صاحب تشریف لائے ہیں اس زمانہ میں حضرت گنگوہی کی آنکھیں تھیں انہوں نے دیکھا پوچھا کہ وضو ہے مولانا کا وضو تھا ۔ فرمایا آئیے نماز پڑھایئے اور خود مصلے پر سے ہٹ گئے ۔ دونوں کا یہ قاعدہ تھا کہ جب وہ گنگوہ آتے تو وہ نماز پڑھاتے اورجب یہ دیوبند جاتے تو یہ پڑھاتے۔ مولانا محمد یعقوب صاحب کی اس وقت یہ ہئیت تھی کہ پائچے چڑھے ہوئے اور چونکہ پیدل