کارکنان تبلیغ کے لیے مولانا محمد الیاس صاحب کی مفید باتیں اور اہم ہدایاتت |
عوت وتب |
|
معلوم ہوتا تو بھی اکثر آپؐ ’’مابال أقوام‘‘ کہہ کر ہی خطاب و عتاب فرماتے۔ (ملفوظات مولانا محمد الیاس صاحبؒ ص:۳۷-۳۱) فائدہ: یہ بات قابل غور اورقابل لحاظ ہوتی ہے کہ منکرات پرنکیر خطاب خاص سے کہاں اور کن لوگوں کو اور خطاب عام سے کب اورکن لوگوں کو؟ علماء محققین نے فرمایا ہے عام لوگوں کو تو عمومی انداز میں خطاب عام سے نکیر کی جائے اور خاص لوگوں سے یعنی جن سے خصوصی تعلق ہو مثلاً استاذ شاگرد، پیر مرید، نگراں ماتحت، باپ بیٹا، اورخاص احباب و متعلقین کے تعلقات میں بڑا چھوٹے کو خطاب خاص سے نکیرکرے گا لیکن نرمی کے ساتھ بلکہ بعض موقعوں پرخطاب خاص سے نکیرکرنا اورغلطی پر تنبیہ کرنا واجب ہے جیسے باپ بیٹے کو، شوہر بیوی کو، استاذ شاگرد کو اگر نکیر کرنے میں کوتاہی کریں گے تو خود بھی گنہگار ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ قریبی لوگوں اور خاص متعلقین کو آپ خطاب خاص سے بروقت نکیر اور تنبیہ فرماتے تھے، مثلاً حضرت عائشہؓ نے ایک مرتبہ دوسری بیوی کے متعلق نامناسب کلمہ کہہ دیا آپ نے فوراً تنبیہ فرمائی کہ عائشہؓ تم نے اتنی سخت بات کہہ دی کہ اگر سمندر میں ڈال دی جائے تو سمندر کڑوا ہوجائے۔باطنی قوت کے ذریعہ بھی منکرات پر نکیر کی ضرورت ولی اور قطب بننے کا طریقہ فرمایا: حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ کی مشہور حدیث ’’من رای منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ‘‘ (مسلم شریف، مشکوۃ۲؍۴۳۶) کے آخری جزء فبقلبہ کا ایک درجہ اور اس کی ایک صورت یہ بھی