کارکنان تبلیغ کے لیے مولانا محمد الیاس صاحب کی مفید باتیں اور اہم ہدایاتت |
عوت وتب |
|
ایسی ہی تقریریں و تحریر یں بلاشبہ شیطانی دھوکہ ہیں ، ان سے اجتناب اور ایسے جلسوں کی اصلاح ضروری ہے جن کا کوئی مفید نتیجہ اور حاصل نہ ہو۔ ورنہ ایسے جلسے جو واقعۃً حدود شرع کے ماتحت ہوں جن سے معاشرہ کی اصلاح اور منکرات پر نکیر ہوتی ہو، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام امت کو سنایا جاتا ہو، ایسی تحریریں جو قرآن و حدیث کی ترجمانی اور اصلاح امت کا کام کرتی ہوں ، نہ صرف مفید بلکہ ضروری ہیں ، دوسرے موقعہ پر حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے خود اس کی ہدایت اور تاکید فرمائی ہے۔ (جیسا کہ ابھی ماقبل میں گذرا)تقریر کے ساتھ عملی نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ایک مکتوب میں تحریر فرمایا: یہ بات میں سمجھتا ہوں کہ جب تک پبلک (عوام) کے سامنے عملی نمونہ نہ ہو تو محض منبروں پر کی تقریر عمل پر پڑنے کے لیے کافی نہیں ہوسکتی، اگر تقریر کے بعد عمل پر پڑجانے کی اسکیم نہ ہو تو عوام کے اندر ڈھٹائی اور بے ادبی کے لفظ بولنے کی عادت پڑجائے گی۔ (مکاتیب مولانا محمد الیاس صاحبؒ ص:۶۸) فائدہ: تقریر کے ساتھ عملی نمونہ کی صورت یہی ہوسکتی ہے علماء کرام اپنی تقریروں میں جو باتیں بیان فرمائیں عوام الناس اس کے مطابق علماء کی نگرانی میں عمل شروع کردیں ، اور حسب ضرورت علماء سے استفسار کرتے رہیں ، اور مشورے لیتے رہیں ۔ مثلاً عبادات کے متعلق کوئی مضمون بیان کیا کہ نمازوں کو درست کرنے کے لیے اذان اور قرآن پاک کا صحیح ہونا ضروری ہے، علم دین حاصل کرنا ضروری ہے، کسی کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ ورثاء کے درمیان تقسیم کرنا ضروری ہے… ان سب پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ باہم مشورہ سے عمل شروع کردیں اور علماء کرام سے پوچھ کر عمل کریں ۔ تب جاکر تقریر کا پورا فائدہ لوگوں کو ہوگا، واﷲ اعلم۔ (مرتب)