کارکنان تبلیغ کے لیے مولانا محمد الیاس صاحب کی مفید باتیں اور اہم ہدایاتت |
عوت وتب |
|
کہ ظن غالب یہ ہو کہ مخاطب جس کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کیا جارہا ہے اس کو سن کر عمل کرے گا، یعنی بات کو تسلیم کرے گا اور عمل کی بھی توقع ہے۔ تو ایسی صورت میں تبلیغ کرنا واجب ہے، ترک جائز نہیں ۔ (۳) اور اگر ظن غالب یہ ہو کہ مخاطب بجائے تسلیم کرنے کے داعی کو برا بھلا کہنے لگے گا، اس کو متہم اوربدنام کرے گا یا ایسی ایذاء کے درپے ہوگا جس کا اس سے تحمل نہ ہوسکے گا یا اس کی وجہ سے اختلاف و عداوت اور جھگڑے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں دعوت نہ دینا یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہ کرنا افضل ہوگا۔ (۴) اور اگر اس کا اطمینان ہو کہ دعوت (امر بالمعروف یا نہی عن المنکر) کرنے کے بعد اس پر جو حالات آئیں گے اس کو برا بھلا کہیں گے یا ماریں پیٹیں گے ان حالات پر وہ صبر کرلے گا، کسی سے اس کا شکوہ نہ کرے گا، تو ایسی صورت میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنا درست ہے، اور ایسا داعی مجاہد کہلائے جانے کا مستحق ہے، ایسی صورت میں اگر یہ مقتول بھی ہوجائے تو عند اللہ شہید شمار ہوگا۔ (۵) اوراگر ایسے حالات ہوں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے کے نتیجہ میں نہ تو کسی قسم کے ضرر کا خطرہ ہے اور نہ ہی مخاطب کے قبول کرنے کی توقع، تو ایسی صورت میں دعوت دینا مباح اور جائز ہے۔ یعنی داعی کو اختیار ہے خواہ دعوت دے یا نہ دے، دینے میں ثواب ملے گا۔ (۶) عوام الناس کے لیے جائز نہیں کہ مشہور عالم، مفتی،قاضی کو دعوت دے، یعنی امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کرے۔ یہ ساری تفصیل ہمارے فقہاء نے ذکر فرمائی ہے۔ فتاوی عالمگیری کی عبارت درج ذیل ہے: إن الأمر بالمعروف علی وجوہٍ، إن کان یعلم بأکبر رأیہ أنہ لو أمر بالمعروف یقبلون ذلک منہ، ویمنعون عن المنکر فالأمر واجب علیہ