کارکنان تبلیغ کے لیے مولانا محمد الیاس صاحب کی مفید باتیں اور اہم ہدایاتت |
عوت وتب |
|
ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: من خرج فی طلب العلم فہو فی سبیل اﷲ حتی یرجع۔ (مشکوۃ شریف کتاب العلم) جو شخص علم کی طلب میں نکلا وہ جب تک کہ گھر واپس نہ آجائے اللہ کے راستہ میں ہے۔ اس سے علم دین سیکھنے اور اس کے لیے ہجرت کرنے، سفر کرنے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، صحابہ کرام کی زندگی یہی بتلاتی ہے کہ ایمان لانے کے بعد وہ طلب علم اور طلب دین کے لیے سفر کرتے تھے، جس میں وہ قرآن پاک کے الفاظ و معانی سب ہی کچھ سیکھتے اور سمجھتے تھے، اور یہی مطلب ہے صحابہ کے اس فرمان کا کہ تعلمنا الإیمان ثم تعلمنا القرآن (ابن ماجہ ص:۷) کہ پہلے ہم نے ایمان سیکھا، پہلے ہم ایمان میں داخل ہوئے پھر ہم نے قرآن پاک سیکھنا شروع کردیا، یہ نہیں کہ ایمان میں داخل ہونے اور قبول اسلام کے بعد غافل ہوگئے، اور علم و عمل میں کوتاہی کرنے لگے، نہیں ایمان لانے کے بعد ہی علم و عمل میں لگ گئے، یہ مطلب بھی نہیں کہ ایمان کا اعلیٰ درجہ اور اعلیٰ مقام حاصل کرلیں اس کے بعد قرآن سیکھنے کا نمبر آیا ہو۔ اگر یہ مراد ہے تو ایمان کے اتنے درجات ہیں کہ مرتے دم تک سارے مراتب حاصل نہیں ہوسکتے، تو مطلب یہ ہوگا کہ ایسا شخص پھر قرآن پاک ہی نہ سیکھے، صحیح بات یہی ہے کہ ایمان قبول کرنے کے بعد آدمی علم دین اور قرآن سیکھنے کا مکلف بن جاتا ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر جو سب سے پہلی وحی نازل ہوئی اس میں بھی علم سیکھنے اور پڑھنے پڑھانے کا ذکر اور اسی کا امر ہے اقراء باسم ربک الآیۃ۔ یہی وہ علم ہے جس کے سیکھنے والے کے لیے فرشتے اپنے پر بچھاتے اور دریا کی مچھلیاں اور چیونٹیاں تک طلبۂ علم دین کے لیے دعا ئیں کرتی ہیں ، اس کی اہمیت اس وجہ سے زیادہ ہے کہ علم دین اور قرآن کے بغیر دین نہیں آسکتا ہے۔ دین آتا ہے اور ایمان بنتا ہے قرآن کے ذریعہ سے ، اس لیے حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے تبلیغی احباب کو علم دین سیکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے، البتہ اس کے بعد اب مجاہدہ کرنا اور دین پھیلانے کی کوشش کرنا ہے، یہ ہے کام کی ترتیب اور اس میں بھی ضرورت پیش آئے گی تقسیم کار کی، کچھ لوگ یہ کام کریں کچھ لوگ دوسرے کام کریں ۔