واسطے علمائے عرب وعجم نے مرزائیوں پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ اگر کوئی مسلمان اپنی دختر کا نکاح کسی مرزائی سے کردے بعد اس کو معلوم ہو کہ یہ شخص مرزائی ہے آیا یہ نکاح عند الشرع جائز ہوگا یا ناجائز یہ شخص اپنی لڑکی کا نکاح ثانی بلائے طلاق مرزائی زوج کے کسی مسلمان سے کرسکتا ہے یا نہیں؟ بینوا بالتفصیل جزاکم اﷲ الرب الجلیل۔
جواب… مرزائی مرد سے سنیہ عورت کا نکاح نہیں ہوتا بلا طلاق سنیہ کا باپ اس کا نکاح کسی سنی سے کرسکتا ہے۔ بلکہ فرض ہے اس لڑکی کو اس مرزائی سے فوراً جدا کرے کہ اس کی صحبت اسکے ساتھ خاص زنا ہے۔ بالکل وہی حکم ہے جو کوئی شخص اپنی دختر کسی ہندو کے گھر بلا نکاح بھیج دے بلکہ اس سے سخت ترکہ وہاں حرام کو حرام کی ہی مد میں رکھا اور یہاں نکاح پڑھا کر معاذ اﷲ اس کو پر حلال کے پیرایہ میں لایا گیا۔ اس سے فو راً علیحدہ کرلینا فرض ہے۔ پھر جس سنی سے چاہے نکاح ممکن ہے۔ ’’رد المحتار ج۲ ص۳۱۳، ۳۱۴‘‘ میں ہے قولہ: ’’حرم نکاح الوثنیۃ وفی شرح الوجیز وکل مذہب یکفربہ معتقد‘‘ در مختار میں ہے: ’’ویبطل منہ اتفاقاً ما یعتمد الملۃ وہی فسخ النکاح‘‘ یہاں تک اصل حکم شرعی کا بیان تھا شرعاً یہ صورت جائز ہے اور ازواج مکررسے پاک کہ پہلا نکاح ہی نہ تھا مگر قانون رائج میں جو امر جرم ہے۔ شرعاً اپنی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لئے اس سے بھی بچنے کا حکم ہے۔ قانون کا حال وکلاء جانتے ہیں ۔
اگر ارزوئے قانون یہی یہ صورت داخل جرم نہ ہو۔ یا قانون حکم فتویٰ کو تسلیم کرکے اس کا جرم نہ ہونا قبول کرے تو حرج نہیں ورنہ ان سے دور رہا جائے ہاں دختر کو جسے جائز طریقہ سے ممکن ہو جدا کرنا سخت فرض اہم ہے۔ اگرچہ دوسری جگہ نکاح نہ ہوسکے۔ واﷲ اعلم وعلمہ اتم کتبہ عبد النبی نواب مرزا عفی عنہ سنی حنفی بریلوی۔ صحیح الجواب واﷲ تعالیٰ اعلم فقیر احمد رضا عفی عنہ بریلوی۔
بے شک بلا تردد کرسکتا ہے کہ مرزائی سے نکاح باطل محض زنائے خالص ہے کہ وہ مرتد ہے اور مرتد کا نکاح کسی قسم کی عورت کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ طلاق کی حاجت نکاح میں ہوتی ہے۔ نہ کہ زنا میں فتاوی عالمگیری میں ہے۔
الفقیر القادری وصی احمد حنفی
فی مدرسۃ الحدیث الدایرۃ فی پیلی بھیت