ہوسکتی۔ مڑ کر جو دیکھا تو میرے استاد نور الدین تھے بس جو پھانک منہ میں ڈالی وہ وہاں رہی اور مسئلہ سمجھ میں آگیا کہ فاسق کسے کہتے ہیں۔ دیکھا آپ نے اسلام انسان کو کس وقار کس بلندی پر لے جاتا ہے۔آپ کہتے ہیں کہ آ ج کل فٹ نہیں آتا۔ ارے بھینسے پر کیسے فٹ آئے۔ گدھے پر کیسے فٹ آئے۔ الّو کے پٹھے پر کیسے فٹ آئے یہ تو انسانوں پر فٹ آتا ہے۔ دیکھو تو سہی کہاں بلند کیا اسلام نے انسان کے وقار کو جو بازار میں کھڑا ہو کر کھائے وہ معتبر نہیں۔ چھوراہے چھورا اور یہاں یہ حال ایک دکان سے دال کھائی دوسری سے بیر اٹھالئے تیسری سے تلونگنیاں کھائیں۔ چوتھی سے شربت پیا اور چلتے چلتے بازار کا صفایا ہورہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک بھینسا یا سانڈھ ہے کہ ہر دکان پر منہ مارتا چلا جارہا ہے۔ میں اﷲ کو کیسے نہ مانوں میں خود اس کے وجود کی دلیل ہوں۔ جس نے مجھ جیسی ایڈی وڈی… قیامت پیدا کردی اور وہ بھی اس طرح کہ میرے بنانے میں محنت نہ کی بلکہ کہا ہو اور میں وجود میں آگیا تو اس آیت کے ماتحت میں کہہ رہا تھا ذرا کان لگا کر سننا بلکہ پتے کی بات ہے۔ ’’ان جائکم فاسق بنباء فتبینوا‘‘اگر ایسا شخص جو شریعت میں معتبر نہیں تمہارے پاس خبر لائے تو وہ قابل اعتبار نہیں اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو سن لو ارشاد ہوتا ہے: ’’ان تصیبوا قوماً بجہالۃ فتصبحوا علیٰ ما فلعتم نٰدمین (حجرات:۶)‘‘ ایسا نہ ہو۔ دیکھنا کہیں کہیں ایسے غلط کار آدمی کی بات نہ مان لو اور کسی پر حملہ کر بیٹھو۔
کسی قوم پر حملہ کر بیٹھو اور نتیجے کے طور پر تمہیں پچھتانا پڑے۔ پہلے ہی سے سوچ لو ایک بات کا نتیجہ یہ بتایا اور باقی کا نتیجہ ’’ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتا فکرہتموہ‘‘ شک نہ کرو۔ بدگمانی نہ کرو، کسی کے عیبوں کی تلاش میں نہ پڑو قوم کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی آدمی پسند کرے گا اپنے مرے ہوئی بھائی کا گوشت نوچے اگر ایسی تمہیں پسند ہے تو پھر جو مرضی آئے کرو۔ ’’یا قومنا اجیبوا داعیا الی اﷲ وامنوا‘‘ اے میری قوم جو اﷲ کی طرف سے آیا ہے۔ اس کی پکار کو سن لو اس کی پکار کو قبول کرلو۔ ہر وہ بات جو اﷲ کی طرف سے آئی ہو جیسا کہ ابھی میں نے پانچ باتیں اﷲ کی بیان کی ہیں جو تاجدار مدینہﷺ کے منہ سے نکلی ہیں۔ ایک شعر ہے میرا:
سی پارہ کلام الٰہی خدا گواہ
اوہم عبارتے ز زبان محمد است
میاں یہ سی پارہ بھی تو انہیں کے منہ سے نکلا ہے۔ ان کے دہاں مبارک اور ان کی زبان