اب بتائو اس خون کا ذمہ دار کون ہے؟ آپ نے موجودہ فرقہ وارانہ کشمکش پر افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تحقیق ہوگی تو معلوم ہوجائے گا کہ گولی سے مرنے والوں کی تعداد بہ نسبت دوسروں کے زیادہ ہے آپ نے غوغائیوں کا حسن تکرار کے طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک رات کو دعوت ہے کہ آجائو اور دوسری رات کو اذن ہے کہ مار دو۔ پاکستانی جدوجہد پر آپ نے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ لوگ چھ سال تک کہتے رہے کہ مسلم انڈیا، ہندو انڈیا، دو مرکز اور دو قومیں اور آخرمیں یہ فیصلہ کیا ایک مرکز ایک قوم اور اسی کانگریس سے مل کر حکومت چلانا۔ آپ نے راجہ غضنفر علی کی شمولیت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلے ہم کو دعوت دینے والو تم اپنے برے عقیدوں سے توبہ کرکے ہمارے ساتھ شریک ہوجائو وہ لوگ جنہوں نے ابو بکرؓ کو مسلمان نہ مانا، عمرؓ کو کافر کہا اور حضرت عائشہؓ کا بت بنا کر آپ کی توہین کی، ہم ان کے ساتھ کیسے شریک ہوجائیں؟ آپ نے کلکتہ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جب میں کلکتہ کا تصور کرتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
خدا کا ہزار ہزار شکر کرتا ہوں کہ یہاں پنجاب میں امن ہے۔ میں نے مقامی لیگ کے اشتہار۱۶؍اگست کے مظاہرے کے متعلق پڑھے کہ یہ مظاہرہ نسیم سحری کی طرح ہو لیکن کلکتہ میں تو یہ بادسموم سے بھی بڑھ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسلام میں ایک چیز ایسی ہے جس پر سب کچھ قربان ہوسکتا ہے۔ وہ مبارک چیز ہے۔ قرآن مجید اور قرآن غریبوں کے لئے ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میری ایک عینک ہے جس کے دو شیشے ہیں ایک قرآن مجید اور دوسرا حدیث نبی اکرمﷺ اگر ایک کو اتار دوں تو میں اندھا ہوں۔ آپ نے مزید وضاحت سے فرمایا کہ ۱۹۱۹ء میں جب ہندوستان کے مسلم علماء و زعما نے ملکی معاملات پر غور کیا اور سوچا کہ طریق کار کیا ہوگا تو متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ کوئی قوم تشدد کے ساتھ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ تب تمام جماعتوں، کانگریس، جمعیت وغیرہ کا بھی یہی فیصلہ تھا اور ہماری جماعت نے بھی یہی فیصلہ کیا اور بیس برس سے اس پر قائم ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہر تحریک تشدد سے تباہ ہوگی۔
جب تک انگریز ہندوستان میں موجود ہے۔ وہ شخص دشمن ہے بنی نوع انسان کا اور ہر انسانی آبادی کا اور قصبہ کا جو درپردہ کہتا ہے کہ تشدد کا طریقہ اختیار کرو۔ نیز آپ نے موجودہ سیاست پر نکتہ چینی کرتے ہوئے فرمایا کہ انگریزوں کے ہاں دماغ بادشاہ ہے اور دل وزیر اس لئے کہ ہم سب کے اوپر ہے آج کل بھی یہی حالت ہے کہ جو سب کے اوپر چڑھ کر بیٹھ جائے وہی