کو حق آزادی دیتے۔ لیکن اب ان کی یہ حالت ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو دوسرے پر اعتبار نہیں رہا اور اب فیصلہ کی کوئی صورت نظر نہیں آئی۔ آپ نے صلح کانفرنس کے پس منظر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ معلوم نہیں ہندوستان کو کیا جواب دیں گے۔ لیکن وقت بہت تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے اور تمام وعدے بین الاقوامی سیاست کے ماتحت ہورہے ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ ہندوستان کو راضی کیا جائے۔
اس کے بعد یک لخت فضانعروں سے گونج اٹھی اور حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ صاحب سٹیج پر تشریف فرما ہوئے۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد آپ کے صاحبزادے عطاء المنعم نے تلاوت قرآن مجید کی جس کو حضرات سامعین نے بڑی دلچسپی وتوجہ سے سنا اور اظہار مسرت کیا اور دعا کی گئی کہ خداوند کریم ان کی عمر دراز کرے اور عالم باعمل بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس کے بعد حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ بخاری تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے آپ نے خطبہ مسنونہ پڑھنے کے بعد حسب ذیل آیت سے اپنی تقریر کا آغاز فرمایا:
’’وان یکادو لیفتنونک عن الذی اوحینا…الخ(بنی اسرائیل ۷۳ )‘‘ برادران عزیز، معزز ومحترم خواتین آج کافی عرصہ کے بعد آپ کی زیارت کا موقعہ ملا ہے۔ میں آج بھی اس قابل نہیں ہوں کہ آپ کے سامنے تقریر کرسکوں۔ جون کے مہینہ سے میں جسمانی تکالیف میں مبتلا پڑا ہوں۔ اسی اثناء میں ماہ رمضان المبارک آگیا اور میں فرض خداوندی کے بجالانے میں مشغول ہوگیا۔
روزہ ایک ایسا فرض ہے کہ جس کی اہمیت اسلام میں بہت زیادہ ہے اور اس فرض کا بجالانا بہت اہم ہے۔ مجھے اس سے بچپن ہی سے محبت ہے۔ اس لئے میں نے آج تک اس فرض کے پورا کرنے میں کبھی بھی کوتاہی نہیں کی۔ ماہ رمضان کے اختتام کے بعد فوراً ہی میری تقریر کا اعلان کردیا گیا اور کوئی فرصت نہ ملی کہ میں اپنے جسم خاکی کی کچھ مدد کرسکوں۔موجودہ وقت میں تقریر کرنا میرے لئے آسان نہیں۔ حالانکہ تقریر میری فطرت ہوگئی ہے۔ بایں ہمہ اوروں کے لئے بہت آسان ہے۔ لیکن میرے نزدیک آج کل تقریر ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ خصوصاً جو کسی جماعت کارکن ہو اور ذمہ داری محسوس کرے۔ میںؒ سمجھتا ہوں کہ میں جو کہوں اور ساتھی کر گزریں تو میں ذمہ دار ہوں۔
آپ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگ میری زندگی کے گواہ ہیں کہ تیس برس