یہودی اس پر تکرار کرتے ہیں اور وہ جوان عورت کے معنے بتاتے ہیں اور ترجمہ ای کوئلہ میں بھی ہے جو ۲۹ء میں ہوا اور ترجمہ تھیوڈوشن میں بھی جو ۱۷۵ء میں ہوا۔ ترجمہ ستیکن میں چو ۲۰۰ء میں ہوا۔ اس کا ترجمہ جوان عورت کیا ہے اور بائبل میں بھی بعض لوگوں نے صرف ایک جگہ جوان عورت کے معنے کہے ہیں۔ مگر یہ تکرار یہودیوں کی درست نہیں ہے۔ اصلی معنے اس لفظ کے (پوشیدہ) کے ہیں اور جو کہ یہودی اپنی لڑکیوں کو لوگوں سے چھپاتے تھے اس لئے یہ لفظ کنواری لڑکی کے معنی میں بولا جاتا تھا۔ چنانچہ کتب عہد عتیق میں کئی جگہ یہ لفظ آیا ہے اور اس کے معنی کنواری کے ہیں لیکن اگر کہیں ایسا قرینہ ہو کہ اس کے سبب جوان عورت سمجھی جائے تو اصلی استعمال سے پھیر کر بطور مجاز جوان عورت کے معنی لیتے ہیں۔ مگر اس درس میں کوئی ایسا قرینہ نہیں بلکہ خلاف اس کے قرینہ ہے کیونکہ اشعیاہ نبی نے معجزہ بتایا ہے اور معجزہ جب ہی ہوتا ہے جب کنواری بیٹا جنے۔ اس لئے اس جگہ بلاشبہ کنواری کے معنی ہیں نہ (مید) یعنی جوان عورت کے اور کچھ شبہ نہیں کہ ان پہلے تینوں مترجموں نے اس کے ترجمہ میں غلطی کی چنانچہ سٹبوایجنٹ میں جس کو بہتر علماء یہود نے مل کر ترجمہ کیا اس لفظ کا اس مقام پر کنواری ترجمہ کیا ہے۔ (تصانیف احمدیہ ج۲ ص۴۰)
’’غرض کہ ایسا زمانہ آگیا تھا کہ روحانی تقدس کسی میں نہیں تھا۔ اس لئے ضرور تھا کہ کوئی ایسا شخص پیدا ہوتا جو روحانی تقدس اور روحانی روشنی لوگوں کو سکھائے پھر وہ کوئی ہوسکتا تھا مگر وہ جو صرف روح سے پیدا ہوا ہو نہ کسی ظاہری سبب چنانچہ اس روحانی روشنی کے چمکانے کو حضرت مسیح علیہ السلام صرف روح اﷲ سے پیدا ہوئے۔ (تصانیف احمدیہ ج۲ ص۲)
پس اب ہم سید صاحب کے بیانات کے بعد اہل مذاق کے انصاف پر بھروسہ کرکے حاشیہ کو ختم کرتے ہیں۔
واﷲ یقول الحق وہو یہدی السبیل منہ!
ماخوذتفسیر ثنائی
مفسرشیخ السلام حضرت مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ
ص۷۴۳ تا۷۴۸…مطبوعہ ثنائی اکادمی، لاہور، پاکستان
٭…………٭