کی آراء مختلف ہوتی ہیں۔مگر یہ بزرگ (سیدنا عیسیٰ علیہ السلام) اس بات میں بھی سب سے نرالے ہیں، یہودان کے دشمن (بلکہ در اصل اپنے دشمن) تھے۔ ان کی رائے ان کی نسبت مخالفانہ تو اسی اصل عداوت کمی فرع اور اسی شاخ کا ثمر ہے۔ مگر ان کے نادان دوستوں (عیسائیوں) نے بھی آپ کی نسبت دراصل مخالفانہ ہی رائے لگائی جس کا ذکر اپنے موقع پر آئے گا۔طرفہ یہ کہ جب مسئلہ (بے باپ ولادت )کے لئے یہ حاشیہ تجویز ہوا ہے۔ اس میں سب کے سب یک زبان متفق ہیں۔ گو ان کے اتفاق کی بنا مختلف ہی کیوں نہ ہو آپ کے مخالف یہود تو اس حیثیت سے آپ کو بے باپ (حقیقی) مانتے ہیں کہ وہ جناب کی پیدائش بد گمانی اور گستاخی سے ناجائز طور کی کہتے ہیں۔عیسائیوں نے جناب والا کی نسبتعجیب عجیب بعیدانہ قیاس باتیں گھڑی ہیں اﷲ اور اﷲ کا بیٹا تو ان کے ہاں عام طور پر زبان زد ہے۔ باپ کے ہونے کے وہ بھی زمانہ شروع اسلام سے آج تک اس امر کے قائل ہیں کہ مسیح بے باپ پیدا ہوئے تھے۔ مگر اس زمانہ اخیر میں سرسید احمد خان مرحوم نے اس سے انکار کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ: وہ بے باپ نہ تھے بلکہ مثل دیگر بچوں کے ماں باپ دونوں سے پیدا ہوئے تھے۔ اس لئے اس حاشیہ میں ہم مسیح کی ولادت کے متعلق دو طرح سے بحث کریں گے۔ ایک ان آیات سے جن میں مسیح کی ولادت مذکور ہے۔ دوسری ان بیرونی شہادتوں سے کریں گے جن کو سید صاحب بھی کسی قدر معتبر جانتے ہیں۔ اسی سورہ آل عمران میں یوں فرمایا:
’’اذ قالت الملٰئکۃ یٰمریم ان اﷲ یبشرک بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسیٰ ابن مریم وجیہا فی الدنیا والاخرۃ ومن المقربین ویکلم الناس فی المہد وکہلاً ومن الصلحین قالت رب انی یکون لی ولد ولم یمسسنی بشر قال کذالک اﷲ یخلق ما یشاء اذا اقضیٰ امرا فانما یقول لہ کن فیکون (آل عمران:۴۵تا۴۷)‘‘ {جب فرشتے نے کہا اے مریم بے شک اﷲ تجھے اپنی طرف سے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام عیسیٰ مسیح مریم کا بیٹا دنیا اور آخرت میں معزز اور (اﷲ کے) مقربوں سے ہوگا اور لوگوں سے گہوارہ اور بڑھاپے میں کلام کرے گا اور وہ نیکوں کاروں میں سے ہوگا۔ مریم علیہا السلام نے کہا اے میرے رب مجھے کس طرح سے لڑکا ہوگا حالانکہ مجھے کسی بشر نے ہاتھ نہیں لگایا۔ فرشتے نے کہا تو ایسی ہے۔ اﷲ جو چاہتا ہے کردیتا ہے۔ جب کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے اتنا ہی کہہ دیتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے۔}
دوسری جگہ سورہ مریم میں اس سے بھی کسی قدر مفصل بیان ہے: ’’واذکر فی الکتٰب