کررہا ہے کہ اس بابرکت ہستی کا تولد عام انسانوں کی پیدائش اور اس سلسلہ میں جو اسباب وعلل عام حالات میں ہوتے ہیں یا ہونے چاہئیں اس سے بالکل مختلف ہوگا اور وہ محض اﷲ کی قدرت کاملہ کا کرشمہ ہوگا اس نمایاں حقیقت سے کوئی صاحب عقل سلیم انکار نہیں کرسکتا۔
پھر آگے پڑھئے جبرائیل علیہ السلام کے جواب پر پھر مریم صدیقہ علیہا السلام نے فرمایا:
’’قالت انّٰی یکون لی غلام ولم یمسسنی بشرولم اک بغیا‘‘ {کہ مجھے فرزند کیسے ہوگا حالانکہ مجھے نہ کسی مرد نے چھوا ہے اور نہ ہی میں فاحشہ عورت ہوں؟ (مریم:۲۰)}
اب آپ دیکھیں کہ الروح الامین نے اس کا جواب کیا دیا؟
مذکورہ بالا صفحات میں جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اس سے قطع نظر صر ف اس سوال کے جواب میں جو کچھ کہا گیا ہے وہی ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ اگر بالفرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کوئی والد ہوتے تو اﷲ کا فرشتہ محترمہ بی بی صاحبہ علیہا السلام کو یہ جواب دیتا کہ بس اس طرح کہ تمہارا نکاح فلاں یا فلاں سے ہوگا پھر اس سے اس مبارک فرزند کی ولادت ہوگی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کے فرشتے نے اس قسم کا جواب تو درکنار اس کی طرف اشارہ بھی نہ کیا بلکہ فرمایا: ’’قال کذالک قال ربک ہو علی ہین ولنجعلہ آیۃ للناس ورحمۃ منا وکان امراً مقضیاً‘‘ {وہ بولے ہاں! ایسا ہی ہوگا، تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ میرے لئے یہ سہل ہے اور اس لئے بھی کہ ہم اسے لوگوں کے لئے ایک نشانی اور اپنی طرف سے رحمت بنائیں اور یہ کام ہوکے رہے گا۔ (مریم: ۲۱)}
’’یعنی یہ بشارت میں اپنی طرف سے تھوڑی دے رہا ہوں، بلکہ میں تو فرستادہ دربار الٰہی ہوں اور ان ہی کا پیغام لے کر آیا ہوں، اور اسی رب نے ہی یہ فرمایا ہے کہ میرے لئے یہ بالکل آسان ہے اور یہ اس لئے بھی کہ اس نومولود بابرکت ہستی کو اپنی قدرت کا ایک نشان بنائوں جو میری طرف سے میرے بندوں پر رحمت بنے گا۔ اور یہ بات اﷲ کے نزدیک طے شدہ ہے۔ ’’یعنی اس میں تخلف کا امکان بھی نہیں۔‘‘ اب اس جواب پر انصاف سے غور فرمائیں۔
اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش والد سے ہونا تھی تو جبرائیل امین کے اس جواب کی کیا تک ہے؟
وہ تو فرما دیتے کہ بس! تمہارا نکاح ہوگا اور آپ کے ہاں یہ بابرکت بیٹا پیدا ہوگا۔ ان کا یہ فرمانا کہ یہ بشارت میں اﷲ کی طرف سے لایا ہوں اور اﷲ فرماتا ہے کہ یہ میرے لئے آسان ہے وغیرہ کا یہاں کوئی مطلب نہیں بنتا۔